بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سودی قرضہ لینے والی کمپنی میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال

 میں یکم جنورِِی 2021 سے ایک پرنٹنگ پریس کمپنی میں بحثیت اکاؤنٹنٹ کام کررہا ہوں ،  کچھ دن پہلے مجھے معلوم ہوا کہ ہماری کمپنی نے تمام اثاثے اور پرنٹنگ مشینیں خریدنے کے لیے ایک فنانسنگ کمپنی سے سود پر قرض لیا تھا،  جسے اب ۲۰۲۳ تک لوٹانا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے  لیے ایسی کمپنی میں تنخواہ پرکام کرنا جائزہے یا نہیں؟

جواب

سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔  اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔  (بیان القرآن )

سود  کے  ایک  درہم کو  رسول اللہ ﷺ  نے 36مرتبہ  زنا کرنے  سے  زیادہ  سخت گناہ  قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

 ’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست و ثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)

نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازا  اس سے  لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔

  خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے۔ نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت  کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، عموماً جو لوگ سود پر قرض لے کر کاروبار کرتے ہیں،  ساری زندگی  سود  سے  پیچھا چھڑانے  میں گزرجاتی ہے، بلکہ بکثرت  ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ سرمایہ مع نفع سب سے ہاتھ دھونا پڑجاتاہے۔

 اس لیے کمپنی کا سودی معاہدہ کرنا اور سود کی بنیاد پر قرضہ لینا ناجائز اور حرام ہے، لیکن اگر کمپنی کا کاروبار  (بزنس)  جائز اور حلال امور  پر مشتمل ہو اور آپ کے سپرد کام بھی جائز ہو تو آپ کے  لیے اس کمپنی میں ملازمت کرنا اور اس کمپنی سے اپنے کام کی تنخواہ لینا جائز ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں