میری شادی کوبیس سال ہوگئے ہیں، میری ایک بیٹی ہے، جس کی میں نے شادی کروادی ہے،میرےشوہر نےشادی کے بعدسے میرانان نفقہ نہیں دیاہے، میں نوکری کرکے اپنا خرچہ اوراپنےسارے لین دین خوداٹھاتی ہوں، گھربھی ہم دونوں نےمل کرخریداہے، لیکن اس کےاندرساراسامان میں نےکمیٹیاں ڈال ڈال کرخریداہے، گھر میرے نام ہے،لیکن اس کی فائل انہوں نے اپنے پاس رکھی ہے، وہ مجھےذہنی اذیت بہت دیتےہیں،بیٹی کی شادی کے بعد توانہوں نے ذہنی اذیت اور بھی زیادہ کردی ہے، جس کی وجہ سے میں بیمارہوگئی ہوں، میں اب ان کے ساتھ نہیں رہناچاہتی، میں نےان سے طلاق کا مطالبہ بھی کیاہے، لیکن وہ طلاق نہیں دیتےاورنہ ہی خلع دیتےہیں، اب مجھےان کےساتھ نہیں رہنا،انہوں نےمیرا حق مہربھی نہیں دیا، جوکہ میں ان سے دوسے تین دفعہ مانگ چکی ہوں، حالانکہ وہ بہت اچھا کماتےہیں اورمیرے اوپر عملیات بھی کرتے ہیں، مہربانی کرکے مجھےاس مسئلہ کا فتوی دےدیں، میں اب ان کےساتھ کسی بھی طرح رہنانہیں چاہتی نہ ہی انہیں کوئی موقعہ دینا چاہتی ہوں، مجھے بہت اذیت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ بیوی کو نان نفقہ اور ہائش فراہم کرنا شوہر کے ذمہ بیوی کا ایسا حق ہے جو نکاح کے مصالح اور مقاصد میں سے ہے اور اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہے، اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، اور اگر شوہر اس کی ادائیگی سے عاجز ہوتو وہ بیوی کو طلاق دے دے، اگر وہ ادائیگی سے عاجز ہونے کے باجود بیوی کو طلاق دینے سے انکار کرےتوبیوی کے مطالبہ پر قاضی شوہر کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے، البتہ بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً شوہراستطاعت کے باوجود آپ کو نان نفقہ نہیں دیتااور نہ ہی طلاق دیتا ہے اور اس حالت میں آپ کااس کے ساتھ رہنا دشوار ہے تو اس سے خلاصی کی یہ صورت ہے کہ اولاً اسے حق مہر کی معافی کے عوض خلع دینے پر راضی کرنے کی کوشش کریں، اگر وہ خلع دینے پر راضی نہ ہو تو عدالت میں شوہر کے نان ونفقہ (خرچہ) نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کریں، اس کے بعد شوہر سے اپنا نکاح اور شوہر کا نفقہ نہ دینا شرعی گواہوں سے ثابت کریں، اس کے بعد جج شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ معاملہ کی پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر باوجود وسعت کے خرچہ نہیں دیتا، تو عدالت اس کے شوہر کو طلب کرکے بیوی کے حقوق ادا کرنے یا طلاق دینے کا کہے، اگر وہ حاضر ہوجائے لیکن کوئی صورت قبول نہ کرے یا حاضر ہی نہ ہو جج ان دونوں کا نکاح فسخ کردے، اس کے بعد عدت گزار کر آپ کا کہیں اور نکاح کرنا جائز ہوگا۔
(ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص: 73،74، ط: دارالاشاعت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول."
( كتاب الطلاق، باب الخلع ،ج:3،ص:441، ط: سعيد)
"المحیط البرہانی" میں ہے:
"و المعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقيًا تقديرًا، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديرًا، وبدونه لايمكن إيجاب النفقة."
( كتاب النفقات ،ج:4،ص:170، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601100375
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن