1۔اگر کسی خاتون کے پاس سونا اور چاندی بقدر نصاب ہو،اس صورت میں اس پر زکوءۃ ادا کرنا واجب ہے، مگر بعض علاقوں میں سونا اور چاندی اگرچہ خاتون ہی کا ہوتا ہے مگر اس سارے اختیارات شوہر کے پاس ہوتے ہے، یعنی شوہر کی اجازت کے بغیر اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔
اس صورت میں ادائیگی زکوٰۃ کس کے ذمہ ہے؟
2۔ہمارے علاقہ میں یہ عرف ہے کہ قبریں ایک بالشت بلند بنائی جاتی ہے، اور یہ کہتے ہیں کہ قبر ایک بالشت بلند بنانا ہی اصل ہے، اور اس پر نمک بھی ثواب کی نیت سے رکھتے ہیں، اور قبر کے سرے پر ایک مٹکا سا رکھ کر اس میں پانی پھرتے ہیں، تاکہ پرندے وغیرہ یہ پانی پی لے اور اس کا ثواب مردے کو ملے۔
کیا مذکورہ معاملات شرعاً درست/ جائز ہے؟
(1)۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کے باب میں قاعدہ اور کلیہ یہ ہے کہ زکوٰۃ اسی شخص پر لازم ہے جونصاب کا ملک ہو، اگر بیوی نصاب کا مالکہ ہے، تو زیورات کی زکوٰۃ بھی اسی پر لازم ہوگی، لہذا جو زیورات دیتے وقت عورت کی ملکیت میں دیے تھے یا میکے کے زیورات ہیں، وہ عورت ہی کی ملکیت ہیں، اس کی زکوٰۃ عورت پر لازم ہے، باقی یہ رواج کہ عورت کو شوہر کی مرضی کے بغیر اپنے زیورات فروخت کرنے کا اختیار نہیں غلط ہے؛ عورت کو یہ اختیار اسلام نے دیا شوہر کو یہ اختیار نہیں، ہاں عورتیں چوں کہ شوہرکے ماتحت ہوتی ہیں، اس لئۓ شوہر کو اعتماد میں لے کر اس قسم کے امور انجام دیتی ہیں، تاکہ باہمی الفت ومحبت میں حرف نہ آئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ شوہر ہی اس کا مالک ہے۔
البتہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر چوں کہ عورتیں گھر کے کام کاج کو سنبھالتی ہیں، اور کمانے کے لئے نہیں نکلتیں بلکہ کمانے کی ذمہ داری مرد کی ہوتی ہے، اور یہی فطرت کا تقاضہ بھی ہے، اس لئے عموماً شوہر ہی بیوی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کردیتے ہیں، اور شوہر کا بیوی کی طرف سے اس کی اجازت سے اس طرح زکوٰۃ ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، تاہم بیوی کی ملکیتی زیورات کی ادائیگی شوہر پر لازم اور واجب نہیں ہے۔
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:
" الزكوة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا بلغ نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول."
(كتاب الزكوة، ج:2، ص:217، ط: مکتبہ ذکریا بدیوبند)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولذا لو أمر غيره بالدفع عنه جاز...الخ."
(كتاب الزكوة، ج:2، ص:270، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل...الخ."
(كتاب الزكوة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطه، ج:1، ص:171، ط: دارالفكر)
(2)۔واضح رہے کہ قبر پر مٹی ڈال کر اسے اونٹ کے کوہان کی مانند ایک بالشت اونچا بنایا جائے، یہی افضل طریقہ ہے، قبر کو ایک بالشت سے اونچا بنانا مکروہ ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويسنم القبر قدر الشبر ولا يربع ولا يجصص ولا بأس برش الماء عليه ويكره أن يبنى على القبر أو يقعد أو ينام عليه أو يوطأ عليه أو تقضى حاجة الإنسان من بول أو غائط أو يعلم بعلامة من كتابة ونحوه، كذا في التبيين.
وإذا خربت القبور فلا بأس بتطيينها، كذا في التتارخانية، وهو الأصح وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي."
(الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر، ج:1، ص:166، ط: دارالفكر)
قبر پر ثواب کی نیت سے نمک رکھنا خلاف شریعت عمل ہے، نیز اس میں زرق کی ناقدری بھی ہے، اور اس کو دین کا جز سمجھ کر کرنا بدعت ہے، اس کا ترک لازم ہے، البتہ میت کو ثواب پہنچانے کے لئے اگر میت کی طرف سے بطور ایصال ثواب پرندوں کے لیے کوئی کھانے پینے کی چیز قبر کے قریب رکھ دی جائے تو اس سے میت کو ثواب پہنچ جائے گا؛ کیوں کہ انسانوں کی طرح جانوروں کو کھانا کھلانا/ پلانا بھی نیکی کا کام ہے، اور ہر نیکی صدقہ ہے، لیکن اس کو لازم سمجھ کے کرنا بھی بدعت ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا فيأكل منه إنسان أو طير أو بهيمة إلا كانت له صدقة."
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان شجرکاری کرتا ہے یا کاشتکاری کرتا ہے، پھر کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی حیوان اس میں سے کھا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ “ متفق علیہ۔
(كتاب الزكوة، باب فضل الصدقة، الفصل الأول، ج:1، ص:595، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
وفيه أيضاً:
"عن جابر وحذيفة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل معروف صدقة."
جابر رضی اللہ عنہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر معروف (بھلی بات، بھلا کلام) صدقہ ہے۔ “ متفق علیہ۔
(كتاب الزكوة، باب فضل الصدقة، الفصل الأول، ج:1، ص:593، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144607100293
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن