والد صاحب کا ایک مکان تھا، اس کے کاغذات پورے نہیں تھے، ان کو پورا کرنے کے لیے رقم درکار تھی، تو بھائی نے اپنی بہن سے 2004 میں اس کے لیے سات تولہ سونا قرض کے طور پر لیا، اس کو فروخت کرکے گھر کے کاغذات (لیز کی فائل) بنوائی، پھر اس گھر کو بیچ دیا اور ایک دوسرا گھر بنوایا، جس کی قیمت ابھی ساڑھے تین کروڑ آرہی ہے۔
اب اس گھر کو بیچتے ہیں تو یہ رقم ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگی، ورثاء میں پانچ بیٹے ، چھ بیٹیاں ، اور ایک بیوہ ہے۔
اور جس بہن (مرحوم والد کی بیٹی) نے سات تولہ سونا دیا تھا، اس کو سونا 2004 کے حساب سے دیا جائے گا یا ابھی جتنے کا سونا ہے اس کے حساب سے دیا جائے گا، اور سونے کی رقم ایک بھائی یا دوسری بہنوں کو کتنی کتنی ادا کرنی ہوگی۔
وضاحت: اس وقت والد صاحب حیات تھے، گھر کے کاغذات کا مسئلہ حل کراکے کسی کے نام کروانا تھا. والد صاحب کی اجازت سے بھائی کے نام ہوا تھا، لیز کروانے میں بھی والد کی اجازت تھی، نیز دیگر بھائی بہنوں کو بھی اس کا علم تھا ، سب کی رضامندی تھی. پھر بھائی نے لیز کے اخراجات کے لیے بہن سے قرضہ لیا ، اس کا بھی سب بھائی بہنوں کو علم تھا۔
صورتِ مسئولہ میں 2004 میں جو سات تولہ سونا بہن سے بطورِ قرض لیا تھا ، اب اس کی ادائیگی کے وقت سات تولہ سونا یا اس کی موجودہ قیمت کے حساب سے رقم ادا کرنا ضروری ہوگا۔
باقی مذکورہ متروکہ مکان کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں بہن (مرحوم والد کی بیٹی)کے قرض کی رقم کو منہا کرنے کے بعد اس کو 128 حصوں میں تقسیم کرکے 16 حصے بیوہ کو، 14، 14 حصے ہر ایک بیٹے کو، اور 7، 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
8/ 128
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||||
16 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی پلاٹ کی قیمت ساڑھے تین کروڑ روپے میں سات تولہ سونے کی قیمت منہا کرنے کے بعد باقی رقم کو فیصد کے اعتبار سے اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ 100 فیصد میں سے ٪12.50 فیصد بیوہ کو، ٪10.93 فیصد ہر ایک بیٹے کو، اور ٪ 5.46 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
الدر مع الرد میں ہے:
"مطلب في قولهم الديون تقضى بأمثالها...قد قالوا إن الديون تقضى بأمثالها...الخ."
( 6/525، کتاب الرھن، فصل في مسائل متفرقة، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144308100858
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن