بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کے سکے بطور قرض دے کر واپسی میں اس کی قیمت سے زائد رقم لینا جائز نہیں


سوال

 ایران میں سونے کے سکے موجود ہیں ،جن کا نام بہار آزادی سکہ ہے۔ واضح رہے کہ پورے ملک میں ان سکوں کا وزن ایک جیسا ہے۔ اور قیمت بھی ایک ہے، جس میں پورے ملک میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور لوگ خرید و فروخت اس طرح کرتے ہیں ،مثال کے طور پر زید کو ایک لاکھ تومان(ایرنی پیسہ) قرض کی ضرورت ہے اور محمد اسے قرض دینے سے پہلے اس سے یہ بندوبست کرتا ہے کہ میں تمہیں ایک لاکھ تومان دوں گا اور اس کے بدلے میں ایک سال بعد تم مجھے دولاکھ تومان دو گے۔ اس کے بعد، تاکہ یہ معاملہ سودی اور ربوا نہ ہو جائے محمد جا کر اس کے لیے دو سکہ بہار آزادی خریدتاہے (ہر سکےکی قیمت پچاس ہزار تومان ہے جو پورے ملک میں یہی قیمت ہے ) اور زید کو دیتا ہے کہ تم مجھے ایک سال بعد دو لاکھ تومان دو گے، کیا ایسا معاملہ کرنا جائز ہے یا سود اور ربوا ہے ؟ اگر ربوا ہے تو اس کا جائز  طریقہ کیا ہے؟  بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں اور ان میں سے اکثر نے اس طرح اپنی مال اور دولت میں اضافہ کیاہے ۔ اگر یہ  معاملہ ربواہے تو یہ لوگ اپنے اس سودی پیسہ کے ساتھ کیا کیا کریں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں محمد کا زید کو دو  بہار آزادی سکہ دینا بطور قرض کے ہے، زید پر لازم ہے وہی دو بہار آزادی سکے یا اس کو ادا کرتے ہوئے مارکیٹ میں جو قیمت ہے وہ بطور قرض واپس لوٹائے، لہذا محمد کا زید سےمشروط طور پر   ایک سال بعد اس کی قیمت سے  زائد رقم لینا قرض سے  نفع حاصل کرنا ہے جو کہ حرام ہے۔ جن لوگوں نے اس طرح نفع کمایا ہے  ان پر لازم ہے  کہ جن سےناجائز طریقے سے پیسے حاصل کیے ہیں ان کو واپس لوٹادیں اور اگر  واپس لوٹانا ممکن نہیں ہے تو اس کو بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کردیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(کتاب البیوع، فصل في القرض، ج:5، ص:166، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

" و الحاصل أنه إن علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه." 

(كتاب البيوع، باب البيع  الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں