ہم سونے کی چوڑی بناتے ہیں ،دس گرام سونے سے ،جب ہم ایک چوڑی بناتے ہیں تو اس کے وزن میں کمی آجاتی ہے ،یہ کمی" پونے دس گرام سے سوا نو گرام "تک ہو جاتی ہے ،اگر ہم اسی چوڑی کو دکاندار پر فروخت کر کے اس کے بدلے مکمل دس گرام سونا لے لیں تو کیا یہ جائز ہے ؟
نیز اس چوڑی کے وزن کی کمی کا دکاندار کو بھی بتاتے ہیں اور اس کمی پر دکاندار بھی راضی ہے۔
واضح رہے کہ اگر سونے کو سونے کے بدلے بیچا جائے تو شریعت کے مطابق اس میں برابری اور فوری قبضہ (ہاتھ در ہاتھ لین دین) ضروری ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں سائل کا سوا نوگرام سے پونے دس گرام تک سونےکی چوڑی کے بدلے دس گرام سونا وصول کرنا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر سونےکی چوڑی میں موتی /نگینے وغیرہ لگے ہوئے ہوں تو اس صورت میں آپ کی جانب سے مثلاً پونے دس گرام سونے کی چوڑی دے کر دس گرام سونا لینا جائز ہوگا۔ اور اگر چوڑی میں کوئی موتی وغیرہ نہیں لگےہیں تو پھر برابری سرابری ضروری ہے، البتہ سونا رقم کے بدلے میں فروخت کرنے کی صورت میں نقد میں قیمت بڑھا کر فروخت کرنا جائز ہو گا۔
مبسوط سرخسی میں ہے:
"قال: ولو وكله بخاتم ذهب فصه ياقوتة. يبيعه، فباعه بفضة أو ذهب أكثر مما فيه، أو بخاتم من ذهب أكثر وزنا منه؛ وليس فيه فص فهو جائز، كما لو باعه الموكل بنفسه؛ وهذا لأن المثل من الذهب يصير بإزاء المثل والباقي، بإزاء الفص، وإن تفرقا قبل قبض أحدهما؛ فسد البيع؛ لأن العقد في حصة الذهب صرف، وإن باعه بخاتم ذهب أكثر مما فيه من الذهب، أو أقل، وفيه فص، وتقابضا جاز."
کتاب الوکالۃ،باب من الوكالة بالبيع والشراء،ج19،ص38،ط دارلمعرفۃ بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الشرائط (فمنها) قبض البدلين قبل الافتراق لقوله: عليه الصلاة والسلام في الحديث المشهور (والذهب بالذهب مثلا بمثل يدا بيد والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد) ."
(کتاب الصرف،فصل في شرائط الصرف،ج5،ص217،دارالکتب العلمیہ)
عالمگیریہ میں ہے:
"ولا يجوز بيع الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل تبرا كان أو مصنوعا أو مضروبا".
(کتاب الصرف،الفصل الأول في بيع الذهب والفضة،ج3،ص218،ط،المطبعۃ الکبری مصر)
وفیہ ایضاً:
"مما بيع فيه الفضة أو الذهب مع غيره وفي بيع ما يباع وزنا فيزيد أو ينقص لو اشترى سيفا محلى بالفضة أو لجاما مفضضا بفضة خالصة وزنها أكثر من الحلية جاز، وإن كان وزنها أقل من الحلية أو مثلها أو لا يدري لا يجوز كذا في محيط السرخسي".
(کتاب الصرف،الفصل الثاني في بيع السيوف المحلاة وما شابهها،ج3،ص221،ط المطبعۃ الکبری مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101032
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن