بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کو ماہانہ قسطوں میں فروخت کرنے کا حکم


سوال

زید نے عمرو (دوکاندار) سے سونے کی خاص مقررہ مقدار ایک لاکھ روپے نقد میں خریدا، اور پھر زید نے بکر کو بعینہ  یہی مقدار سونے کی ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے میں ماہانہ قسطوں میں فروخت کیااور نقد کچھ بھی ادا نہ کیا، اب سوال یہ ہے کہ زید اور بکر کے درمیان ہونے والا معاملہ کون سا معاملہ ہے، اور اس کا حکم کیا ہے؟  علّت سمیت بیان کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید اور بکر کے درمیان مذکورہ معاملہ (یعنی سونے کو کرنسی کے بدلے فروخت کرنے کا معاملہ) "عقدِ صرف" کہلاتا ہے، اور عقدِ صرف میں اگر سونے کی بیع کرنسی کے بدلے ہو تو مجلسِ عقد میں عاقدین کے جدا ہونے سے پہلے پہلےعوضین پر ہاتھ درہاتھ قبضہ کرنا اور دونوں جانب نقد ہونا ضروری ہے،اس لیے کہ کرنسی نوٹ ثمنِ اصطلاحی ہے، جس طرح سونا چاندی کی خریدوفروخت میں ادھار ناجائز ہے، اسی طرح روپے کے بدلے سونا چاندی کی خریدوفروخت میں بھی ادھار کا معاملہ (یعنی ایک طرف سے عوض پر قبضہ ہونا اور دوسری طرف سے ادھار ہونا) سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، اس لئےزید اور بکر کے درمیان مذکورہ معاملہ یعنی سونے کو ماہانہ قسطوں میں  فروخت کرنےکی صورت حرام اور ناجائزہے۔

فتاویٰ شامی (الدرالمختار ورد المحتار) میں ہے:

"(وإلا) بأن لم يتجانسا(شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح.

(قوله: شرط التقابض) أي قبل الافتراق كما قيد به في بعض النسخ. وفي البحر عن الذخيرة لو اشترى المودع الوديعة الدراهم بدنانير وافترقا قبل أن يجدد المودع قبضا في الوديعة بطل الصرف، بخلاف المغصوبة؛ لأن قبض الغصب ينوب عن قبض الشراء بخلاف الوديعة اهـ. (قوله: لحرمة النساء) بالفتح أي التأخير فإنه يحرم بإحدى علتي الربا: أي القدر أو الجنس كما مر في بابه".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:2، ص:259، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں