میرے پاس پانچ تولہ سونا ہے، اور پچاس ہزار کیش ہے، مجھے کتنی زکات ادا کرنی ہو گی،اور میری بیٹی کو میں نے ساڑھے تین تولہ سونا دیا اور وہ بالغ ہے، کیا اس پر بھی زکات ہے، اگر ہے تو کتنی ہو گی؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کی ملکیت میں اگر سونے کے ساتھ مذکورہ نقدی ( پچاس ہزار روپے ) ضرورت سے زائد ہیں، تو ایسی صورت میں چوں کہ سونے کے ساتھ نقد رقم بھی ہے، اس لیے چاندی کی قیمت کا اعتبار ہو گا، اور سونے اور نقد رقم کی مجموعی مالیت چوں کہ چاندی کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) سے زیادہ بنتی ہے ، اس لیے مذکورہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد سائل پر شرعاً زکوۃ لازم ہو گی، جس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن سال پورا ہو اس دن سونے کی قیمت کو نقد رقم سے ملاکر مجموعی مالیت کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد ) بطورِ زکوۃ ادا کر نا لازم ہو گا، اور اگر نقد رقم ضروری اخراجات کی ہو ، تو ایسی صورت میں سائل کی ملکیت میں صرف سونا رہ جائے گا، جو کہ اپنے نصاب ( ساڑھے سات تولہ ) سے کم ہے، لہذا اس کی وجہ سے سائل پر زکوۃ لازم نہیں ہو گی۔
البتہ سائل کی بیٹی کے پاس اگر صرف سونا ہے، اس کے ساتھ کونقدی وغیرہ نہیں ہے، تو سونا چوں کہ اپنے نصاب سے کم ہے، اس لیے بیٹی پر شرعًا زکوۃ لازم نہیں ہو گی۔ لیکن اگر سونا کے ساتھ کوئی نقدی یا چاندی بھی ہو تو قمری مہینوں کے اعتبار سے سال گزرنے پر بحسب شرائط زکات واجب ہوگی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 22):
"وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا".
وفیہ ایضاً : (2/ 19)
' فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.۔۔۔ (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر۔'
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) يضم ( الذهب إلى الفضة ) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة) وقالا بالإجزاء ."
(كتاب الزكاة، باب زكاة المال ۲/ ۳٠۳ ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100905
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن