آج کل سونااورچاندی کو زرگرسے ادھارلیاجاتاہے۔توکیاسونااورچاندی کومروجہ پیسوں کے عوض ادھارلیناجائز ہے؟اورکیااس پربیع صرف کااطلاق ہوگا؟اورکیااگرثمن خلقی کامقابلہ ثمن عرفی کے ساتھ ہو توکیااس پر بیع صرف کااطلاق ہوگا؟
عام کرنسی نوٹوں کی تاریخ:
واضح رہے ابتداء زمانہ میں خرید وفروخت کے معاملہ میں سامان کا تبادلہ سامان سے کیا جاتا تھا، پھر سکّے کے ذریعے خرید وفروخت کا رواج شروع ہوا، پھر عام لوگ سونے چاندی کے سکّے صرافوں کے پاس امانت کے طور پر رکھ کر ان سے وثیقے اور اعتماد کے طو رسید وصول کرلیتے تھے، پھر اس کے بعد لوگوں نے انہیں رسیدوں پر خرید وفروخت کا کاروبار شروع کردیا، اس کے بعد یہی رسیدیں نوٹوں کی شکل اختیار کرگئیں، پھر جب نوٹوں کو قانونی طور پر کرنسی کی حیثیت دی گئی تو اس وقت ان نوٹوں کے پیچھے سو فیصد سونا ہوتا تھا، پھر سونے کی شرح بھی کم ہوتی گئی یہاں تک کہ کم ہوتے ہوتے سونے کی شرح بالکل ختم ہی ہوگئی ، لہذا اب نوٹوں کے پیچھے کوئی سونا نہیں اور نہ ہی نوٹ سونا چاندی کی رسید ہے، بلکہ نوٹوں کی اپنی مستقل حیثیت ہونے کی وجہ سے یہ باقاعدہ سونے چاندی کی طرح ثمن (زراعتباری) ہے ، لہذا ثمن کی دو قسمیں ہوگئی ہےجو مندرجہ ذیل ہیں:
1:ثمن خلقی، جیسے سونا، اور چاندی جو "حقیقی زر" ہے، کیوں کہ ان کی قوت خرید فطری ہے، اگر زر کی حیثیت سے ان کا رواج ختم بھی ہوجائے، تب بھی جنس کے اعتبار سے ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے۔
2: ثمن عرفی، جیسے عام کرنسی/نوٹ جو" اعتباری زر " ہے، اگر زر کی حیثیت سے ان کا رواج ختم ہوجائے تو سونے چاندی کی طرح ان کی افادیت باقی نہیں رہتی۔
لہذا آج کل نوٹوں کی حیثیت وہی ہے جو آپﷺ کے زمانہ میں سونے اور چاندی کی ہوا کرتی تھی، اور سونے اور چاندی کے جو احکام ہیں وہی احکام نوٹوں کے بھی ہوں گے، نیز مذکورہ کرنسی ( نوٹوں) کو سابقہ زمانہ کے فلوس (دھاتی سکّے) پر قیاس کرکے عروض (عام سامان) کا حکم بھی نہیں لگا سکتے؛ کیوں کہ فلوس (دھاتی سکّے ) میں زر کے بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، اسی وجہ سے فلوس آپ ﷺ کے زمانہ بھی موجود تھے، لیکن اس وقت بھی ان سکوں میں ربا اور سود کے احکام جاری نہیں ہوتے تھے۔ (ماخوذ از تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، ج:4/ص:80، ج:5/ص:308، ط:بیت العمار)
بصورتِ مسئولہ مذکورہ تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ثمن خلقی (یعنی سونا/ چاندی ) اور ثمن عرفی (یعنی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کرنسی نوٹ) دونوں ربا سے متعلق تمام احکام میں یکساں ہے، لہذا جیسےسونے اور چاندی کا آپس میں تبادلہ "بیع صرف" کہلاتا ہے،اسی طرح سونے اور چاندی کا تبادلہ عام کرنسی سے بھی بیع صرف کہلاتا ہے، اور بیع صرف میں چوں کہ دونوں ثمن کا آپس میں قبضہ ضروری ہے؛ لہٰذا سونے/ چاندی اور کرنسی نوٹوں کے تبادلہ میں بھی قبضہ ضروری ہے، حاصل یہ ہے کہ سونے/ چاندی کو نوٹوں کے بدلے بیع صرف ہونے کی وجہ سے ادھار سے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.
(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق."
(باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتب الاسلامى)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144206200370
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن