1۔میاں بیوی کو شادی کے موقع پر کچھ سونا وغیرہ دیا جاتا ہے،اب چونکہ سال گزرنے کے بعداس سونے کی رقم اگر زکات کے نصاب کو پہنچ جاتی ہے تو پھر اس پر زکات واجب ہوگی، ایک بندہ چاہتا ہے کہ اس سونے وغیرہ کی جو مالیت ہو وہ مستقبل میں اس کی اولاد کی ضروریات میں استعمال ہو سکے، لیکن 10, 15 سال اگر وہ اس سونے کو اسی حالت میں رہنے دیتا ہے تو اس کو ہر سال اس کی زکات دینی پڑے گی، جبکہ بندے کی نوکری وغیرہ ایسی ہے کہ ہر سال اس کے لیے زکوۃ ادا کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ اس کی نوکری وغیرہ کی رقم اتنی ہے کہ اس سے گھریلو اخراجات وغیرہ پورے ہو جاتے ہیں، اسی طرح دیگر ضروریات مثلا سواری وغیرہ کی سہولت بھی اس کے پاس موجود ہے، اسی طرح اس رقم کو وہ کسی کاروبار وغیرہ میں بھی استعمال نہیں کر سکتا ہے، اب شرعی اعتبار سے کیا کوئی حیلہ ایسا ممکن ہے کہ یہ سونا وغیرہ یا اس کی رقم بیوی کے پاس کچھ سالوں تک موجود رہے مگر ان پر زکوۃ کی ادائیگی نہ آئے؟ یعنی میاں بیوی ہر سال میں سال مکمل ہونے سے پہلے بطور حیلہ اس کی ملکیت کو تبدیل کر لیں تو شرعی اعتبار سے کوئی مضائقہ تو نہیں؟
2۔ اسی طرح اگر نابالغ بچے کو اس کا مالک بنا دیا جائے تو وہ بچہ اس کا مالک بن جائے گا؟ پھر سال گزرنے کے بعد باپ کے اوپر زکات کی ادائیگی واجب ہوگی یا نہیں ؟اور پھر بچے کی بلوغت سے قبل اگر باپ کو سونے کو واپس اپنی ملکیت میں کرنا چاہے تو وہ باپ کی ملکیت واپس ہو جائے گی یا اس سونے کو بچے کی کسی ضرورت میں اس کی بلوغت سے پہلے استعمال کرنا چاہیے؟ اس کا کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ سونے کی زکوۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے اور اس کا یہ نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ اس وقت ہے جب کہ سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (چاندی، ضرورت سے زائد نقد رقم، مالِ تجارت) موجود نہ ہو، لہٰذا اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو اورنقد رقم، مالِ تجارت یا چاندی کچھ بھی موجود نہ ہو تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔
لیکن اگر سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکاۃ مال موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکاۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہوگی۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر بیوی کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہے یا شوہر کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہے یا سونا ساڑھے سات تولہ تو نہیں، لیکن کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (چاندی، رقم، مالِ تجارت) موجود ہو تو اس پر سال گزرنے کے ساتھ زکات واجب ہوگی،البتہ زکات سے بچنے کے لیے سال مکمل ہونے سے پہلے میاں بیوی کا ایک دوسرے کو سونا دینا اورملکیت کو تبدیل کرنے سے اگرچہ زکات ساقط ہوجائے گی لیکن ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہےاور ناجائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے فقراء کے حق کو ختم کرنا لازم آتا ہے۔
2۔صورتِ مسئولہ میں اگر نابالغ اولاد کو سونے کا مالک بنادیا تو وہ شرعا اسی اولاد کی ملکیت شمار ہوگا اور جب تک وہ اولاد بالغ نہیں ہوجاتی اس پر اس سونے کی زکات واجب نہیں ہوگی، بالغ ہونے کے بعد اگر اُس کی ملکیت میں اس سونے کے علاوہ کچھ چاندی، نقدی یا مالِ تجارت ہوا تو سال گزرنے کے بعد صرف اسی سال کی زکات واجب ہوگی، گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔نیز سونا اولاد کی ملکیت میں دےدینے کے بعد والدین کے لیے اس کو فروخت کرنا یا اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ اب اُس اولاد کی ذاتی ملکیت ہے ۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"الحيلة لإسقاط الزكاة: يحرم التحايل لإسقاط الزكاة كأن يهب المال المزكى لفقير ثم يشتريه منه، أو يهبه لقريب قبل حولان الحول ثم يسترده منه فيما بعد."
(الباب الرابع: الزكاة وأنواعها، الفصل الأول: الزكاة، المبحث السابع: مصارف الزكاة، المطلب الثاني: أحكام متفرقة في توزيع الزكاة، سادسا: الحيلة لإسقاط الزكاة،1978/3،ط:دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"( وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية ) والعلم به ولو حكماً ككونه في دارنا: (قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها، وإيجاب النفقات والغرامات لكونها من حقوق العباد والعشر."
(كتاب الزكاة، 258/2، ط: دار الفكر)
وفیه ایضا :
"وإذا فعله حيلة لدفع الوجوب كأن استبدل نصاب السائمة بآخر أو أخرجه عن ملكه ثم أدخله فيه، قال أبو يوسف لا يكره؛ لأنه امتناع عن الوجوب لا إبطال حق الغير. وفي المحيط أنه الأصح.
وقال محمد: يكره، واختاره الشيخ حميد الدين الضرير؛ لأن فيه إضرارا بالفقراء وإبطال حقهم مآلا، وكذا الخلاف في حيلة دفع الشفعة قبل وجوبها : وقيل الفتوى في الشفعة على قول أبي يوسف، وفي الزكاة على قول محمد، وهذا تفصيل حسن شرح درر البحار."
(كتاب الزكوة، 284/2، ط :سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101989
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن