بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سود کی رقم کا حکم


سوال

میں سرکاری ملازم ہوں، ملازمت کے آغاز پر تنخواہ کی وصولی کے لیے بینک اکاونٹ کھلوایا جاتا ہے جو کہ میں نے کرنٹ اکاؤنٹ کھلوایا اور بعد میں گورنمنٹ پالیسی کے مطابق تمام سرکاری ملازمین کے اکاؤنٹ سیونگ اکاؤنٹ میں تبدیل کر دیں گے ہمارے پوچھے بغیر اور اب ہر وہ گورنمنٹ ملازم کا اکاؤنٹ سیونگ ہوگا جس میں ہر ماہ تنخواہ آتی ہے۔ اب میں ہر ماہ اپنی تنخواہ میں کچھ نہ کچھ بچت کرتا ہوں جو بینک کے اکاؤنٹ میں ہوتے ہیں اور اس پر بینک کی طرف سے دو یا تین مہینوں میں ان پیسوں پر بینک والے اکاؤنٹ میں مجھے منافع/ سود کے کچھ پیسے اکاؤنٹ میں جمع کر دیتے ہیں اب میں ان پیسوں کا کیا کروں اور کیا یہ پیسے میں اپنے بہن بھائیوں یا کسی اپنے عزیزوں میں تقسیم کر سکتا ہوں جو مستحق ہو یا ضرورت مند ہوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل بینک سے ملنے والی سودی رقم کو بینک میں ہی رہنے دے، اس کو نہ نکالے، اس لئے کہ شریعت مطہرہ میں سود کا حکم واضح ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود لینے والے پر سود دینے والے پر سودی لین دین کا کاغذ لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں، لہذا سائل اس سودی رقم کو کسی بھی مصرف اور کسی بھی نیت سے نہ نکالے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(عن جابر قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا")، أي: آخذه وإن لم يأكل، وإنما ‌خص ‌بالأكل ‌لأنه ‌أعظم أنواع الانتفاع كما قال تعالى: "إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما" (ومؤكله)... أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه نظرا إلى أن الأكل هو الأغلب أو الأعظم كما تقدم،... (وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل (وقال)، أي: النبي صلى الله عليه وسلم (هم سواء)، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره (رواه مسلم)."

(كتاب البيوع، باب الربا: 5/ 1916، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں