بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سود کی رقم سرکاری ٹیکس کی مد میں دینا


سوال

میں نے ایک زمین مکان تعمیر کرنے کے لیے خریدی تھی، رجسٹریشن فیس پانچ لاکھ روپے تھی، جو انٹرسٹ (سود)  کی رقم سے ادا کی گئی، پھر چند سال بعد زمینی کاغذات میں سے ایک ڈاکو منٹ (BBMP APPROVED PLAN) کی ضرورت پڑی، جس کو جاری کرانے کے لیے گورنمنٹ فیس چھ لاکھ روپے ادا کرنی تھی، وہ بھی انٹرسٹ کی رقم سے ادا کی گئی اور یہ رقم سرکاری محکمہ تک گئی تھی اور ایک صاحب نے مسجد کے لیے جگہ وقف کی تھی، تو ابھی چار سال پہلے مسجد کی جگہ مسجد کے ٹرسٹ کے نام پررجسٹر کی گئی، اس کے لیے رجسٹریشن فیس چھ لاکھ روپے انٹرسٹ کے پیسوں میں سے ادا کی گئی، اسی طرح‌گورنمٹ افسران سے کاغذات حاصل کرنے کے لیے رشوت کے طور پر وقتا فوقتا انٹرسٹ کی رقم دی گئی، نیز کورٹ میں جو بے جا مقدمات میرے خلاف اس زمین پر ڈالے ڈالے گئے تھے، ان افراد کے خلاف لڑنے کے لیے وکلاء جو بڑی بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو بھی انٹرسٹ کی رقم دی گئی ہے،اسی طرح آج کل بہت ساری اشیاء جو مارکیٹ سے خریدتے ہیں، ان میں (GST) کے طور پر رقم لیتے ہیں اتنی رقم سال بھر جو لی گئی، اس کوایک جگہ لکھ لیتا ہوں اور اتنی رقم انٹرسٹ میں سے نکال کر استعمال میں لے آتا ہوں، اس کا حکم کیا ہے ؟مذکورہ انٹرسٹ کی رقم  ( STATE BANK OF INDIA ACCOUNT ) پرائیوٹ بینک سے حاصل تھی، اتنی بڑی سود کی رقم اس طرح حاصل ہوئی کے باہر سعودی عرب میں ملازمت تھی جس کے لیے ( NON RESIDENT INDIAN ACCOUNT ) ہوتا ہے، تیرہ سال سے اس میں اتنی انٹرسٹ کی رقم جمع ہوئی تھی تو شرعی اعتبار سے ان جگہوں پر انٹرسٹ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو یہ سب میرے ذمہ قرض ہے جو مجھ کو جلد از جلد بغیر ثواب کی نیت کے ادا کرنا ہوگا؟ نیز کن افراد کو یہ رقم ادا کریں گے؟ اور کیا کہہ کر دیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ سود کی رقم حاصل کرنا اور اسے کسی بھی درجے میں  استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے، اگر کسی ذریعے سے سود کا مال حاصل ہوجائے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے اپنے مالک کی طرف لوٹایا جائے، اگر مالک کی طرف لوٹانا ممکن نہ ہو،  تو اسے بغیر ثواب کی نیت کےکسی غریب مستحقِ زکات شخص پر  صدقہ کرنا ضروری ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے جتنی رقم مذکورہ بالا مصارف پر لگائی ہے وہ اور مزید جو سود کی رقم سائل کے پاس موجود ہے، وہ ساری رقم بغیر ثواب کی نیت کے کسی مستحقِ زکات پر صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے۔

رد المحتار میں ہے:

"سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ."

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:385، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"والحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم ‌أرباب ‌الأموال ‌وجب ‌رده ‌عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:99، ط:سعيد)

قط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511100725

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں