بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سودی نظام کی بنیاد پر سود لینے کو بہانہ بنانا


سوال

ہم لوگ جب کسی سودی کاروبار کرنے والے کو اس کے برے فعل سے منع کرتے ہیں اور ان کو احادیث بیان کر کے حکم سمجھا دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا سارا نظام سود ی ہے، بین الاقوامی طور پر جو نظام ہے وہ سودی ہے، پھر اگر ہم سودی معاملہ کریں تو کیا مسئلہ؟

تو کیا یہ  ان کے اس فعل کے لیے دلیل بن سکتی ہے؟ اور اگر نہیں بن سکتی تو اس کے جواب کو واضح کیجیے!

جواب

سود کی قباحت، شناعت اور حرمت ایک واضح امر ہے، ہر مسلمان کو اپنی حد تک اس سے مکمل طور پر بچنے کی پوری کوشش کرنا چاہیے اور سود کھانے کے لیے یہ کہنا کہ چوں کہ بین الاقوامی نظام ہی سودی ہے؛ اس لیے ہمارے ذاتی طور پر بھی سودی معاملات کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں، کسی طرح مناسب نہیں۔

بات یہ ہے کہ  کچھ معاملات تو ایسے ہوتے ہیں جہاں انسان اپنی کوشش سے اگر سودی معاملہ سے بچنا چاہے تو بچ  سکتا ہے، ایسی جگہوں پر انسان کے لیے اپنے آپ کو سودی معاملہ سے بچانا ضروری ہوتا ہے۔

تاہم دوسرے کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں سودی معاملہ میں ابتلاء بامر مجبوری ہوتا ہے، مثلاً: ملکی سطح کے  قرضے وغیرہ،  اُن کی اصلاحات ایک عام انسان کے اختیار میں نہیں ہوتیں، اس لیے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس قسم کے سودی معاملات پر ایک عام انسان کا مؤاخذہ بھی نہیں فرمائیں گے۔

لیکن اس قسم کے غیر اختیاری معاملات کی وجہ سے یہ کہنا کہ ہم ذاتی طور پر بھی سودی معاملات کرتے رہیں گے، بالکل درست نہیں، سود کھانے والے کے لیے اللہ پاک کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے، سود کا گناہ اپنی ماں سے بدکاری  کرنے کے گناہ سے بھی زیادہ شدید ہے، لہذا اس سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔

قرآنِ کریم میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾" [البقرة : 278 إلى 280 ]

ترجمہ:" اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے،  اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ "(بیان القرآن )

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"2826 - وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "«الربا سبعون جزءًا أيسرها إثمًا أن ينكح الرجل أمه»".

2826 - (وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الربا) أي إثمه (سبعون جزءًا) أي بابًا أو حوبًا كما جاء بهما الرواية (أيسرها) أي أهون السبعين (إثمًا) وأدناها كما في رواية (أن ينكح الرجل أمه) أي يطأها وفي رواية: " «الربا ثلاثة وسبعون بابا أيسرها مثل أن ينكح الرجل أمه، وإن أربى الربا عرض الرجل المسلم» " رواه مالك عن ابن مسعود. رواية: " «الربا اثنان وسبعون بابًا أدناها مثل إتيان الرجل أمه، وإن أربى الربا استطالة الرجل في عرض أخيه» " رواه الطبراني في الأوسط عن البراء. ففي الحديثين دلالة على أن وجه زيادة الربا على معصية الزنا إنما هو لتعلق حقوق العباد إذ الغالب أن الزنا لا يكون إلا برضا الزانية ولذا قدمها الله - تعالى - في قوله - تعالى - {الزانية والزاني} [النور: 2] وإلا فأي عرض يكون فوق هتك الحرمة ومرتبة القذف بالزنا دون معصية الزنا والله - تعالى - أعلم."

( كتاب البيوع، باب الربا، 5 / 1925، ط: دار الفكر)

حدیثِ مبارک میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»"

(الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:، دار احیاء التراث ، بیروت)

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  سود  کھانے (لینے) والے پر،  سود کھلانے (دینے)  والے پر،  سودی لین دین  لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں