بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سوتیلی بیٹی کے ہاتھ میں زبردستی آلہ تناسل پکڑوا نے سے اس کی ماں کے ساتھ نکاح کا حکم


سوال

ایک شخص نے مطلقہ  سے شادی کی،  شادی کے بعد اس مطلقہ بیوی  کی تیرا سالہ بیٹی کے پیٹ کو چھوا  اور  اس کےہاتھ میں زبردستی اپنا آلہ تناسل پکڑوایا،  تو  کیا اس شخص کا نکاح اس مطلقہ سے برقرار رہا یا ٹوٹ  گیا؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر  کوئی اپنی  بیٹی  ( چاہے  سوتیلی بیٹی ہو یا  سگی ) کو  شہوت کے ساتھ بغیر کسی حائل کے چھوئے  یا درمیان میں کپڑا وغیرہ حائل ہو ،  لیکن   بدن میں  اس کی گرمی محسوس ہو تو  اس صورت میں حرمت مصاہرت  قائم ہو جاتی ہے ،  اگر چہ شہوت ایک طرف سے ہو ،  جس  کی وجہ سے    دونوں کے اصول اور فروع ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں ۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ  میں  واقعی  اگر مذکورہ شخص نے اپنی سوتیلی بیٹی کو   بغیر کسی حائل  کے زبردستی  اپنا آلہ تناسل  پکڑوایا ہے ، تو اس صورت میں  اگر  سوتیلے باپ   کو اس وقت انزال نہ ہو اہو تو حرمت  مصاہر ت  قائم ہوگئی ہےاور اس کی بیوی اس پرہمیشہ کے لیے  حرام ہوگئی ہے   اور ان  دونوں کا مزید ایک ساتھ رہنا شرعًا درست نہیں ہے،  جس کی وجہ سے شوہر پر لازم ہے  کہ اپنی بیوی  کو طلاق دے کر   یا نکاح سے خارج کرنے کے الفاظ کہ کر اس سے علیحدگی  اختیار کرے  ۔ 

فتاوی شامی میں ہے : 

"(و)حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة  (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا...إلخ."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج : 3، ص: 33، الناشر : سعيد)

وفیه أيضا:

"(ولا فرق) فيما ذكر (بين اللمس والنظر بشهوة بين عمد ونسيان) وخطأ، وإكراه، فلو أيقظ زوجته أو أيقظته هي لجماعها فمست يده بنتها المشتهاة أو يدها ابنه حرمت الأم أبدا فتح."[وفي رد المحتار:]"(قوله: ولا فرق فيما ذكر) أي من التحريم وقوله: بين اللمس والنظر وصوابه في اللمس والنظر، وعبارة الفتح ولا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا إلخ أفاده ح قال الرحمتي: وإذا علم ذلك في المس والنظر علم في الجماع بالأولى."

(كتاب النكاح ، فصل في المحرمات، ج: 3، ص:35،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا...إلخ "[وفي رد المحتار :]"(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ) قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ. (قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 37، ط: سعيد)

مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبہر میں  ہے : 

"(وكذا) يوجبها (المس) ولو بحائل ووجد حرارة الممسوس سواء كان عمدا، أو سهوا، أو خطأ أو كرها حتىلو أيقظ زوجته ليجامعها فوصلت يده ابنته منها فقرصها بشهوة وهي ممن تشتهى لظن أنها أمها حرمت عليه الأم حرمة مؤبدة ولك أن تصورها من جانبها بأن أيقظته هي كذلك فقرصت ابنه من غيرها...إلخ"[إلى أن قال:]"(ولو أنزل مع المس) ، أو النظر (لا تثبت الحرمة) ؛ لأنه تبين بإنزاله أنه غير داع إلى الوطء الذي هو سبب الجزئية و (هو الصحيح)."

(كتاب النكاح، باب المحرمات، ج: 1، ص: 326، ط: دار إحياء التراث العربي) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144511101446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں