بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سوتیلے بیٹے کے ساتھ ہمشیرہ کے نکاح کا حکم


سوال

میری شادی ایک بیوہ خاتون سے ہوئی تھی جس کا پہلے سے ایک بچہ تھا جو اب بڑا ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میری ہمشیرہ کی شادی اس یتیم بچے سے ہو سکتی ہے ؟ یعنی میرے سوتیلے بیٹے سے میری ہمشیرہ کی شادی ہو سکتی ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں   سائل کے سوتیلے    بیٹے کا  اس کی  ہمشیرہ کے ساتھ  چو ں کہ    کوئی حرمت  کا رشتہ نہیں ہے  اس لیے اس  کی شادی     سائل کی ہمشیرہ   کے ساتھ جائز ہے۔ 

فتاوی  شامی میں ہے : 

"(وزوجة أصله وفرعه مطلقا) ولو بعيدا دخل بها أو لا. وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال." [وفي رد المحتار :] " (قوله: وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال) وكذا بنت ابنها بحر. قال الخير الرملي: ولا تحرم بنت زوج الأم ولا أمه ولا أم زوجة الأب ولا بنتها ولا أم زوجة الابن ولا بنتها ولا زوجة الربيب ولا زوجة الراب. اهـ."

(كتاب النكاح ، فصل في المحرمات ، ج : 3 ، ص: 31 ، الناشر : سعيد) 

و فيه  أيضأ: 

"(وتحل أخت أخيه رضاعا) يصح اتصاله بالمضاف كأن يكون له أخ نسبي له أخت رضاعية، وبالمضاف إليه كأن يكون لأخيه رضاعا أخت نسبا وبهما وهو ظاهر.(و) كذا (نسبا)بأن يكون لأخيه لأبيه أخت لأم، فهو متصل بهما لا بأحدهما للزوم التكرار كما لا يخفى." 

(كتاب النكا ح، باب  الرضا ع  ، ج : 3 ، ص: 217 ، الناشر : سعيد) 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے : 

" وفي الحجة....إلخ " ٍ[ إلى أن قال : ]" و العمة حرام ، وهي على ثلاثة أصناف : أخت أبيك لأب وأم، وأخت أبيك لأب،أخت أبيك لأم." 

( كتاب النكاح ،  الباب السابع في أسباب المحرمات ، ج : 4،ص: 47 ، الناشر : مكتبة زكريا) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وتحل أخت أخيه رضاعا كما تحل نسبا مثل الأخ لأب إذا كانت له أخت من أمه يحل لأخيه من أبيه أن يتزوجها كذا في الكافي ."

(كتاب الرضاع ، ج : 1 ، ص: 343 ،  الناشر  : سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144510100795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں