میرے والد محترم کا انتقال ہوگیا ہے، والدہ کا انتقال پہلے ہوگیا تھا، والدہ کے انتقال کے بعد والد صاحب نے دوسری شادی کرلی تھی، دوسری والدہ سے کوئی اولاد نہیں ہے، ہم دو بہن بھائی ہیں، جو کہ والد مرحوم کی پہلی بیوی سے ہیں، اور میرا بھائی گونگا بہرا ہے، دوسری والدہ ابھی عدت میں ہیں ، والدہ جوان ہیں ، اور بھائی بھی جوان ہے، ان دونوں کے علاوہ گھر میں کوئی نہیں رہتا۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ بھائی اور دوسری والدہ گھر میں ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں چونکہ آپ کی دوسری والدہ آپ کے بھائی کےلیے محرم ہیں ، تو ان دونوں کا ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہنا جائز ہے، بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ البتہ اگر ان پر فتنہ کا اندیشہ ہو تو ایک ساتھ رہنے میں احتیاط کی جائے ،اگر بصورتِ مجبوری اگر ایک ساتھ رہنا ضروری ہو تو خاندان کی کوئی بااعتماد خاتون بھی ان کے ساتھ رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آباؤُكُمْ مِنَ النِّساءِ إِلَاّ ما قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلاً."[سورة النساء، آية:22]
ترجمہ: ”اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمھارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو، مگر جو بات گزرگئی (گزرگئی) بےشک یہ (عقلاً بھی) بڑی بےحیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے، اور (شرعًا بھی) بہت برا طریقہ ہے۔“ (از بیان القرآن)
تفسیرِ بیضاوی میں ہے:
"إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ استثناء من المعنى اللازم للنهي وكأنه قيل: وتستحقون العقاب بنكاح ما نكح آباؤكم إلا ما قد سلف، أو من اللفظ للمبالغة في التحريم والتعميم."
(ج:3، ص:67، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة هربت ودخلت خربة أو كانت عجوزا شوهاء أو بحائل، والخلوة بالمحرم مباحة إلا الأخت رضاعا، والصهرة الشابة.
وفي الرد: (قوله إلا الأخت رضاعا) قال في القنية: وفي استحسان القاضي الصدر الشهيد، وينبغي للأخ من الرضاع أن لا يخلو بأخته من الرضاع، لأن الغالب هناك الوقوع في الجماع اهـ.
وأفاد العلامة البيري أن ينبغي معناه الوجوب هنا (قوله والصهرة الشابة) قال في القنية: ماتت عن زوج وأم فلهما أن يسكنا في دار واحدة إذا لم يخافا الفتنة وإن كانت الصهرة شابة، فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة اهـ وأصهار الرجل كل ذي رحم محرم من زوجته على اختيار محمد والمسألة مفروضة هنا في أمها والعلة تفيد أن الحكم كذلك في بنتها ونحوها كما لا يخفى."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج:6، ص:369، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604102422
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن