بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا سوتیلا والد محرم ہے؟


سوال

میری ایک جگہ شادی ہوئی، اور میری وہاں سے ایک بیٹی ہوئی، اس کے بعد خانگی معاملات اور دیگر مسائل کی بنا پر علیحدگی ہوگئی،کچھ عرصے بعد میری بھی دوسری جگہ شادی ہوگئی، اور میرے سابقہ شوہر کی بھی دوسری جگہ شادی ہوگئی۔

میری بیٹی پیدائش کے پہلے روز سے ہی میرے ساتھ تھی، علیحدگی کے وقت بھی اور اب تک وہ میرے ساتھ ہی ہے، اور خوش ہے،جہاں میری دوسری شادی ہوئی، انہوں نے بھی برضا و رغبت میری بیٹی کو قبول کیا اور اس کا بہت اچھے طریقے سے خیال رکھنے لگے۔

اب میری بیٹی کی عمر آٹھ سال ہوچکی ہے، اور میرے سابقہ سسرال والوں کا کہنا یہ ہے کہ بیٹی بڑی ہورہی ہے، اور میرے دوسرے شوہر یعنی میری بیٹی کے سوتیلے والد میری بیٹی کے لیے نامحرم ہیں۔

ہم نے ایک مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ سوتیلا والد سوتیلی بیٹی کے لیے نامحرم نہیں ہوتا،مگر اس سے ان کی تشفی نہیں ہورہی۔

 گزارش ہے کہ اس بارے میں تحریری طور پر فتویٰ عنایت فرمائیں کہ آیا سوتیلا والد سوتیلی بیٹی کے لیے محرم ہوتا ہے یا نامحرم؟

جواب

واضح رہے کہ والدہ کا شوہر(سوتیلا والد) محارم میں شامل ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کی پہلے شوہر کی بیٹی اس کے دوسرے شوہر کی محرم شمار ہوگی،تاہم شرعی ضابطہ کے مطابق طلاق کے بعد اگر خاتون کسی ایسے شخص سے نکاح کرلے، جو اس کی اولاد کا ذی رحم نہ ہو، تو ماں حق پرورش سے شرعا محروم ہوجاتی ہے، اور  پرورش کا حق نانی کو منتقل ہوجاتا ہے، اگر نانی نہ ہو،  تو دادی کو منتقل ہوجاتا ہے،اور بیٹی کی عمر نو سال مکمل ہونے پر والد اسے اپنے زیر تربیت رکھنے کا حق دار ہوتا ہے، البتہ اگر والد بیٹی کو اس کی ماں کے پاس چھوڑنے تیار ہو،تو اس کی شرعا اجازت ہوتی ہے،لہذا بچی کے ددھیال والوں کا یہ کہنا کہ سوتیلا والد بچی کا محرم نہیں، شرعا درست نہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا}. [ النساء:۲۳]

”ترجمہ:۔ تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں اور تمہاری بیبیوں کی مائیں اور تمہاری بیبیوں کی بیٹیاں جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں اور ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹیوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہو چکا ہے بیشک اللہ تعالی بڑے بخشنے والے بڑی رحمت والے ہیں ۔“

(بیان القرآن، ج:1، ص:343، ط:رحمانیہ)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع) ... (قوله وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى وبه علم أنه لو قال حتى تبلغ لكان أولى وعن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية وهو المعتبر لفساد الزمان،... وقدره أبو الليث بتسع سنين وعليه الفتوى اهـ."

(كتاب الطلاق ،باب الحضانة، ج:4، ص:184 ، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الحاضنة (‌يسقط ‌حقها ‌بنكاح غير محرمه)"

(كتاب الطلاق ،باب الحضانة، ج:4، ص:184 ، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606102081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں