وتر کی نماز نہ پڑھنے کی صورت میں صبح کی نماز کے فساد کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول راجح کیا ہے ؟ جو صاحب ہدایہ نے ذکرکیا ہے وہی ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نےامام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جس قول کی طرف اشارہ کیا ہے یہ بے شک امام صاحبؒ کا راجح اور مفتٰی بہ قول ہے، کیوں کہ وتر کی نماز امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک واجب ہے، مذکورہ قول کو صاحبِ ہدایہ نے بھی ذکرکیا ہے، ذیل میں ہدایہ کی پوری عبارت ذکر کی جاتی ہے۔
مذکورہ مسئلہ کی وضاحت اس طرح ہے کہ: اگر کوئی شخص صاحبِ ترتیب ہو(یعنی چھ وقت تک نمازیں اس کی قضاء نہ ہوئی ہو) اور اس نے وتر کی نمازنہ پڑھی ہو اور صبح کی نماز میں اس کو یاد آجائے تو صبح کے وقت میں وسعت ہونے کی صورت میں اس کی صبح کی نماز فاسد ہوجائے گی، جب تک کہ وہ وتر کی نماز نہ پڑھے، اور اگر صبح کے وقت میں گنجائش نہ ہو تو پھر صبح کی نماز درست ہوگی، یہی حکم بقیہ نمازوں میں بھی رہے گا جب تک کہ چھ نمازیں پوری نہ ہوجائے۔
ہدایہ میں ہے:
"ولو صلى الفجر وهو ذاكر أنه لم يوتر فهي فاسدة عند أبي حنيفة رحمه الله خلافا لهما، وهذا بناء على أن الوتر واجب عنده، سنة عندهما، ولا ترتيب فيما بين الفرائض والسنن."
(كتاب الصلوة، باب قضاء الفوائت، (1/ 73)، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"عن أبي حنيفة - رضي الله تعالى عنه - في الوتر ثلاث روايات في رواية فريضة، وفي رواية سنة مؤكدة، وفي رواية واجب وهي آخر أقواله وهو الصحيح. كذا في محيط السرخسي ولو كان سنة تبعا للعشاء لكره تأخيره إلى آخر الليل كما يكره تأخير سنتها تبعا لها هكذا في التبيين."
(كتاب الصلوة، الباب الثامن في صلاة الوتر، (1/ 111)، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضا:
"ولو صلى الفجر وهو ذاكر أنه لم يوتر فهي فاسدة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ولو تذكر فائتة في تطوعه لم يفسد تطوعه؛ لأن الترتيب عرف واجبا في الفرض بخلاف القياس فلا يلحق به غيره، كذا في محيط السرخسي."
(كتاب الصلوة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، (1/ 121)، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(فلم يجز) تفريع على اللزوم (فجر من تذكر أنه لم يوتر) لوجوبه عنده (إلا) استثناء من اللزوم فلا يلزم الترتيب (إذا ضاق الوقت المستحب)."
(كتاب الصلوة، باب قضاء الفوائت، (2/ 66)، ط: سعيد)
وفیہ ایضا:
"وتذكره في الفجر مفسد له كعكسه) بشرط خلافا لهما (و) لكنه (يقضى)...
(قوله مفسد له) أي للفجر والفجر غير قيد، بل هو مثال. (قوله كعكسه) وهو تذكر الفرض فيه ح (قوله بشرطه) وهو عدم ضيق الوقت وعدم صيرورتها ستا، وأما عدم النسيان فلا يصح هنا لأن فرض المسألة فيما إذا تذكره في الفجر، أو تذكر الفجر فيه رحمتي فافهم."
(كتاب الصلوة، باب الوتر والنوافل، (2/ 5)، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101955
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن