میری سولہ سال پہلے شادی ہوئی ،ڈھائی مہینے تک ہمارے تعلقات ٹھیک رہے، وہ موبائل پر میرے چچا سے باتیں کرتی تھی ، اور ڈھائی سال بعد میں نے اس کو اپنے بھائی سے ہنسی مذاق کرتے دیکھا تو غصہ میں9-8 طلاقیں دے دیں، ان ڈھائی سالوں میں ہمارا ایک بیٹا بھی ہوا،اس کے بعد اس نے میرے چچا سے شادی کی ، اب یہ پوچھنا ہےکہ یہ لڑکا میرا ہے، یا میرے بھائیوں کا ہے،یا مشترکہ ہے؟ کیوں کہ اس کےمیرے بھائیوں سے بھی تعلقات تھے، مجھے شک ہے کہ یہ میرا بیٹا نہیں، شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرما ئیں کہ اس بچے کا نسب مجھ سے ثابت ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں شادی شدہ عورت کا نامحرم کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرنا یقینًا انتہائی قبیح فعل ہے، شادی شدہ عورت کے بچے کا نسب اس کےشوہر سے ثابت ہوتاہے،لہذا مذکورہ بچہ سائل کا ہی شمار ہوگا اور اس کا نان ونفقہ بھی اس کے ذمہ لازم ہوگا، سائل کے شک کا اعتبار نہیں۔
ترمذی شریف میں ہے:
"حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش، وللعاهر الحجر. وفي الباب عن عمر، وعثمان، وعائشة، وأبي أمامة، وعمرو بن خارجة، وعبد الله بن عمرو، والبراء بن عازب، وزيد بن أرقم. حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح. والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. وقد رواه الزهري، عن سعيد بن المسيب، وأبي سلمة، عن أبي هريرة".
(سنن الترمذي: كتاب الرضاع/ باب ما جاء ان الولد للفراش: ج:2، ص:454، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"و منها ثبوت النسب، وإن كان ذلك حكم الدخول حقيقة لكن سببه الظاهر هو النكاح لكون الدخول أمرا باطنا، فيقام النكاح مقامه في إثبات النسب، ولهذا قال النبي: صلى الله عليه وسلم: «الولد للفراش، وللعاهر الحجر»، وكذا لو تزوج المشرقي بمغربية، فجاءت بولد يثبت النسب، وإن لم يوجد الدخول حقيقة لوجود سببه، وهو النكاح."
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج:2، ص:332، ط:دار الکتب العلمیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144609101219
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن