1۔ہمارے بعض قریبی رشتہ دار وں نے بینک میں سود پر پیسے رکھے ہوئے ہیں اور ہر ماہ بینک کی طرف سے انہیں نفع کے طور پر پیسے ملتے ہیں،اب غمی وخوشی میں توشرکت کرنا لازم ہوتا ہے،سو ہم شرکت کر لیتے ہیں اور ان کے یہاں کھانا پینا کرلیتے ہیں،اس کے علاوہ بسا اوقات عام دنوں میں ان کے یہاں جانا پڑتا ہےتو وہ کھانا وغیرہ پیش کرتے ہیں،اب اگر ہم نہ کھائیں تو ناراضگی کا باعث بنتا ہےاور کھانے کا بالکل جی نہیں کرتا،اب اس بارے میں شرعی حکم بیان فرمائیں کہ اگر ہم ان کے یہاں جانا بالکل ترک کردیں تو کیا قطع رحمی میں تو شمار نہ ہوگایا ہم ان کے یہاں جایا کریں تو پھر ان کے یہاں ہمارے لیے کھانے کا کیا حکم ہے؟
2۔اس طرح ایک صاحب سودی ادارے میں کام کرتے ہیں جو بینک سے سود پر پیسے لے کر اشیاء خریدتے ہیں اور انہیں آگے بیچتے ہیں یا کرایہ پردیتے ہیں اور ان صاحب کا کام اس ادارے کےلیے بینک میں جاکر سود پر قرضہ لینااور پھر اسے واپس اداکرنا ہے۔
3۔مذکورہ صاحب کی بیوی نے بھی بینک میں سود پر پیسے رکھے ہوئے ہیں،اب ان صاحب کے یہاں ہمارا جانا کیساہے،ان کی بیوی گھر سے مختلف کھانے بناکر ان کی آن لائن سپلائی کاکام بھی کرتی ہیں،آیا ہم ان کے یہاں جایا کریں یا بالکل ترک کردیں؟
1۔صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے رشتہ داروں کے مذکورہ حرام آمدنی کےعلاوہ بھی کوئی حلال آمدنی ہے اور کھانا وغیرہ بھی حلال کی رقم سے تیار کرتے ہیں تو ان کے یہاں خوشی غمی کے موقع پر کھاناپینادرست ہے،اگر مخلوط آمدنی ہےتو ایسی صورت میں غلبہ کا اعتبار ہے،اور اگر حرام ہی حرام کی کمائی ہے تو ان کے یہاں کھانا نا جائز ہے،اورصلہ رحمی کے لیے رشتہ داروں کے گھر جا کر کھا نا ضروری نہیں ہے،اس کے علاوہ بھی تعلق رکھا جاسکتا ہے،لیکن خود کو حرام غذا سے بچانابھی ضروری ہے،سلام وکلام اور دیگر امور بحال رکھ کر بھی قطع تعلقی سے بچا جاسکتا ہے۔
نیز انہوں نےبینک سے جو نفع (سود) وصول کرلیا ہے،اس کو بلا نیت ثواب فقراء پرصدقہ کرناان کے لیے ضروری ہے۔
2۔ اسی طرح جوصاحب سودی ادارے میں کام کرتے ہیں اور اس ادارے کےلیے بینک میں جاکر سود پر قرضہ لیتا ہےاور پھر اسے واپس اداکرتا ہے،اس صاحب کا یہ عمل حرام ہے اور تعاون علی المعصیۃ کےزمرہ میں آتا ہے اور گناہ کے کاموں میں کسی بھی قسم کاتعاون قرآن اور حدیث کی رو سے ناجائز اور حرام ہے۔
3۔مذکورہ صاحب کی بیوی نے بینک میں جو رقم رکھی ہے، اس پر بینک سے نفع لینا سوداورحرام ہے،جو سود وصول کیا اس کو بلا نیت ثواب فقراء پر صدقہ کرنا ضروری ہے،البتہ گھر میں کھانے تیا رکرکے آن لائن فروخت کرنا درست ہے ،بشرط یہ کہ کھانا مذکورہ حرام رقم سے تیار نہ کرتی ہو،نیزسائل اپنے طور پر بھر پور کوشش کرے،خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ اپنےرشتہ داروں کو اس حرام آمدنی سے متعلق وعید کی آیتیں اور احادیث سنائے، خدا کے عذاب سے ڈرائے، پند و نصیحت کرے اور ساتھ ساتھ میں اللہ تبارک وتعالی سے ان کے لیے دعاؤں کا بھی اہتمام کرے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ." [ المائدۃ :2]
ترجمہ :’’ اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلا شبہ اللہ تعالی سخت سزادینے والے ہیں۔‘‘(بیان القران)
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب: أن محمد بن جبير بن مطعم قال: إن جبير بن مطعم أخبره:أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لا يدخل الجنة قاطع."ترجمہ:’’ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،کہ انہوں نے حضورﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :رشتہ ناتا توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
( كتاب الأدب، باب إثم القاطع، 8/6، ط: المطبعة الكبرى الأميرية )
وفیہ ایضاً:
"حدثنا خالد بن مخلد: حدثنا سليمان: حدثنا عبد الله بن دينار، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الرحم شجنة من الرحمن، فقال الله: من وصلك وصلته ومن قطعك قطعته."
ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ رحم(یعنی رشتہ داری) کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے،اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ پس جو تجھے جوڑے گا ( یعنی صلہ رحمی کرے گا) میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لوں گا اور جو کوئی تجھے توڑے گا(یعنی قطع رحمی کرے گا) میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لوں گا۔‘‘
( کتاب الأدب، باب: من وصل وصله الله، 8/ 6، ط: المطبعة الكبرى الأميرية )
مسلم شریف میں ہے:
"عن جابر، قال:"لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."
ترجمہ:’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے ،کھلانے والے ،لکھنے والے،اور اسکی دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے،اور فرمایا کہ( گناہ)میں یہ سب برابر ہے۔‘‘
(کتاب المساقاۃ،باب لعن آكل الربا ومؤكله،1219/3،ط:مطبعة عيسى البابي الحلبي)
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان. "
ترجمہ:’’حضرت ابو سعید خدری رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے جو شخص کسی خلاف شرع امر کو دیکھے (یعنی جس چیز کو شریعت کے خلاف جانے) تو اس کو چاہیے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے (یعنی طاقت کے ذریعہ اس چیز کو نیست و نابود کر دے مثلا با جوں گا جوں اور آلات لہو و لعب کو توڑ پھوڑ دے نشہ آور مشروبات کو ضائع کر دے اور ہڑپ کی ہوئی چیز کو اس کے مالک کے سپرد کرادے وغیرہ وغیرہ) اور اگر وہ (خلاف شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی خلاف شرع امور کے بارے میں وعید کی آیتیں اور احادیث سنائے، خدا کے عذاب سے ڈرائے، پند و نصیحت کرے اور اگر کوئی سیدھی طرح نہ مانے تو سخت سست کہے) اور اگر زبان کے ذریعہ بھی اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر دل کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی اس کو دل سے برا جانے قلبی کڑھن رکھے اور اس عزم و ارادہ پر قائم رہے کہ جب بھی ہاتھ یا زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت حاصل ہوگی تو اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرے گا، نیز اس خلاف شرع امر کے مرتکب کو بھی برا جانے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرے) اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘(از مظاہر حق)
(کتاب الآداب، باب الأمر بالمعروف، الفصل الأول، 1421/3، رقم الحدیث:5137، ط: المكتب الإسلامي،بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
( کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، 99/5، ط: سعید )
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."
( کتاب الکراهیة، الباب الثانی عشرفی الھدایاوالضیافات، 343/5، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر )
کفایت المفتی میں ہے:
’’ (سوال) رشوت خور ،سود خور ،چوری پیشہ اور جس کے گھر میں بے نکاحی عورت ہو ،اس کے گھر کا کھانا جائز ہے یا ناجائز ؟
(جواب)اگر ان لوگوں کے گھر اور بھی کوئی حلال آمدنی ہے تو کھانا جائز ہے اور اگر حرام ہی حرام کی کمائی ہے تو کھانانا جائز ہے اور بہر صورت نہ کھانا بہتر ہے۔‘‘
( کتاب الحظر والاباحۃ ، 248/9، ط: دار الاشاعت ،کراچی )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن