ایک آدمی نے گاڑی خریدی ایک لاکھ دس ہزار درہم پر، جس میں بیس ہزار اس نے جمع کیے، باقی نوے ہزار بینک نے شوروم والوں کو جمع کرائے، اب یہ آدمی بینک کو ایک لاکھ چار ہزار روپے جمع کریں گے قسطوں پر، آیا یہ سود ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ معاملہ سودی معاملہ ہے، سودی معاملات کرنا یا اس میں کسی قسم کی معاونت کرنا سب ناجائز اور حرام ہے، کسی مسلمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ سودی معاملہ کرے، لہذا فی الفور مذکورہ عقد کو ختم کیا جائے۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."
( صحیح مسلم، كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله،ج: ۳، صفحہ:۱۲۱۹، رقم الحدیث: ۱۵۹۸، ط: دار إحياء التراث العربي)
شرح النووی علی المسلم میں ہے:
"وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهم من المبطلين لئلا يناله ما يعاقبون به وفيه أن من كثر سواد قوم جرى عليه حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا."
(كتاب الفتن وأشراط الساعة، ج: ۱۸، صفحہ: ۷، صفحہ: ۷، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101195
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن