بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر میں فرض کے ساتھ سنتوں کے پڑھنے کا حکم


سوال

نماز قصر میں فرض کے علاوہ باقی  نماز پڑھنا چاہئے یا نہیں ؟

جواب

اگر سفر جاری ہو اورجلدی ہو یا گاڑی نکلنے کا اندیشہ ہو، یا ساتھیوں کو پریشانی ہورہی ہو، یا خوف ہو تو   پھر صرف فرائض کی ادائیگی کافی ہے، اور فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی سنتوں کو چھوڑنا جائز ہے، البتہ فجر  کی سنتوں کی تاکید چوں کہ زیادہ ہے، اس  لیے فجر کے فرائض کے ساتھ وہ بھی پڑھی جائیں گی۔ اور اگر سفر جاری ہو اور  کسی مقام پر نماز کے لیے ہی رکے ہوں اور جلدی نہ ہو  اور امن ہو تو سنتوں  کا  پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ اسی طرح اگر مسافر کسی شہر یا بستی میں ٹھہرا ہو  چاہے، پندرہ دن سے کم ہی قیام ہو تو راجح قول کے مطابق سنتیں  پڑھنی چاہئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں سنتیں پڑھنا ثابت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها هو المختار لأنه ترك لعذر تجنيس، قيل إلا سنة الفجر۔"

(‌‌باب صلاة المسافر ، ج : 2 ، ص : ط : دار الفکر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا قصر في السنن، كذا في محيط السرخسي، وبعضهم جوزوا للمسافر ترك السنن والمختار أنه لا يأتي بها في حال الخوف ويأتي بها في حال القرار والأمن، هكذا في الوجيز للكردری۔"

(الباب الخامس عشر في صلاة المسافر ، ج : 1 ،ص : 139 ، ط : دار الفکر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511100306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں