بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سلیمان علیہ السلام کی طرف سے تمام حیوانات کی دعوت والے قصہ کی تحقیق


سوال

 واقعہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے کہا کہ میں تیری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں ،اللہ پاک نے کہا :تو نہیں  کر سکتا، سلیمان علیہ السلام نے کہا: نہیں، میں کرنا چاہتا ہوں، تو اللہ پاک نے کہا کہ اچھا  کر لے۔  سلیمان علیہ السلام چھ ماہ تک کھانا بناتے رہے اور پہاڑ جیسا کھانا تیار کر لیا، اور اس کے بعد کہا : اللہ اپنی مخلوق کو بھیج، اللہ پاک نے ایک مچھلی بھیجی جس نے سارے کھانے کا ایک لقمہ بنا یا اور کھا گئی۔ اور کہا : مجھے میرا رب روزانہ تین ایسے لقمے کھلاتا ہے ،تو نے مجھے بھوکا رکھا ہے، تو سلیمان علیہ السلام سجدے میں گر گئے کہ یا اللہ،  واقعی پالنا تیرا ہی کام ہے۔

کیا یہ واقعہ درست  ہے؟

جواب

مذکورہ واقعہ کی اصل كسي حدیث میں تو هميں نہیں مل سکی، البتہ  علامه عبد الكريم قشیری رحمہ اللہ (المتوفي: 465ھ) نے’’قیل‘‘کے لفظ کے ساتھ اس واقعہ کا مجموعی مضمون نقل فرمایا ہے ، ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

"وقيل: إن سليمان عليه السلام سأل الله تعالى أن يضيف يوما جميع الحيوانات فأذن له في ذلك، فجمع الطعام مدة طويلة، فأرسل الله حوتا، فأكل جميع ما جمعه، ثم سأله الزيادة، فقال له سليمان: أأنت تأكل كل يوم مثل هذا؟ فقال: كل يوم ثلاثة أضعاف هذا، فليتك لم تضفني، ولا أحالني الله عليك." 

(التحبير في شرح التذكير، فصل في معنى العظيم، (ص: 41)، ط/ دار الكتب العلمية، بيروت) 

اسی واقعہ کو علامہ قشیری رحمہ اللہ کے حوالہ سےعلامہ دَمِیری رحمہ اللہ (المتوفي:808ھ) نے ’’یقال‘‘کےلفظ کے ساتھ درج ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے: 

"قال القشيري: يقال: إن سليمان عليه الصلاة والسلام سأل ربه سبحانه وتعالى، أن يأذن له أن يضيف يوماً جميع الحيوانات، فأذن الله تعالى له، فأخذ سليمان في جمع الطعام مدة طويلة، فأرسل الله تعالى له حوتاً واحداً من البحر، فأكل كل ما جمعه سليمان في تلك المدة الطويلة، ثم استزاده، فقال سليمان: لم يبق عندي شيء، ثم قال له: وأنت تأكل كل يوم مثل هذا؟ فقال: رزقي كل يوم ثلاثة أضعاف هذا، ولكن الله لم يطعمني اليوم إلا ما أطعمتي أنت، فليتك لم تضيفني فإني بقيت اليوم جائعاً حيث كنت ضيفك انتهى.

(حياة الحيوان الكبرى، الحوت، (1/ 380)، ط/ دار الكتب العلمية، بيروت)

بعد ازاں اس واقعہ کو علامہ صفوری رحمہ اللہ  (المتوفي: 894ھ) نے  بھی ’’حکایۃ‘‘ کے عنوان سے نقل فرمایا ہے، ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں : 

"حكاية: قال سليمان عليه السلام لنملة: كم رزقك في كل سنة؟ قالت: حبة حنطة، فحبسها في قارورة، وجعل عندها حبة حنطة، فلما مضت السنة فتح القارورة، فوجدها قد أكلت نصف الحبة، فسألها عن ذلك، فقالت: كان اتكالي على الله قبل الحبس، وبعده كان عليك، فخشيت أن تنساني، فادخرت النصف إلى العام الآتي، فسأل ربه أن يضيف جميع الحيوانات يوما واحدا، فجمع طعاما كثيرا، فأرسل الله تعالى حوتا، فأكله أكلة واحدة، ثم قال: يا نبي الله إني جائع، فقال: رزقك كل يوم أكثر من هذا؟ قال: بأضعاف كثيرة، وفي حادي القلوب الطاهرة قال: إني آكل كل يوم سبعين ألف سمكة، وكان طعام سليمان عليه السلام لعسكره كل يوم خمسة آلاف ناقة، وخمسة آلاف بقرة، وعشرين ألف شاة. "

(نزهة المجالس، باب الكرم والفتوة ورد السلام، (1/ 213)/ ط/  المطبعه الكاستلية - مصر)

 مذکورہ عبارات سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ، اسرائیلی روایات کی  قبیل سے ہے۔ اور  ۱سرائیلی روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا، اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو بیان کرنے کی گنجائش ہے، اور جن روایات میں ایسی باتیں ہوں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں تو  ہم ان کی تکذیب کریں گے، اور ایسی روایات کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

چونکہ مذکورہ واقعہ ایسا ہے کہ جس کی تصدیق  تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہیں ملتی ، لیکن یہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکرا بھی نہ رہا، لہذا اس کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو اس کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب، البتہ اسے   بیان کرنے کی گنجائش ہوگی، لیکن اس بیان کرنے میں اس چیز کا التزام ضروری ہے کہ اسے اسی  قدر بیان کیا جائے جس قدر  اہل علم نے نقل فرمایا ہے ۔

تنبیہ : 

سوال میں قصہ کوجس تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، وہ تفصیل ان عبارات میں موجود نہیں ، جیسے سوال میں درج ہے کہ ’’ سلیمان علیہ السلام چھ ماہ تک کھانا بناتے رہے اور پہاڑ جیسا کھانا تیار کر لیا‘‘  ۔ اب چھ ماہ تک کھانا بنانے  کی تصریح مذکورہ کسی عبارت میں نہیں ہے، بلکہ ان عبارات میں فقط اتنی بات درج ہے کہ ’’فجمع الطعام مدة طويلة ‘‘   یعنی کہ وہ ایک طویل مدت تک کھانا جمع کرتے رہے، لیکن اس مدت کی تعیین یہاں نہیں، اور یہ کہ ’’پہاڑ جیسا کھانا تیار کر لیا‘‘ اس کی تصریح بھی یہاں موجود نہیں ، بلکہ یہاں فقط اتنی بات درج ہے کہ ’’فجمع طعاما كثيرا‘‘ یعنی  انہوں نے بہت سارا کھانا جمع کیا،  البتہ اس کی مقدار کتنی تھی ؟اس کی کوئی تصریح یہاں موجود نہیں، اور یہ کہ ’’سلیمان علیہ السلام سجدے میں گر گئے کہ یا اللہ واقعی پالنا تیرا ہی کام ہے‘‘ یہ بات بھی ان عبارات میں  موجود نہیں  ، لہذا جب تک یہ چیزیں کسی مستند کتاب  میں  یہ تفصیلات  نہ مل جائیں،  تب تک اس تفصیل ومدت کو بیان کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں