"سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں میرے گھر بھی ہو جائے چراغاں یا رسول اللہ" کیا یہ شعر پڑھنا جائز ہے، اور کیا ان شعر کے ظاہری معنی پر اعتقاد رکھنا درست ہے؟
واضح رہے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علی الاطلاق اپنے عشاق کے ہاں اور ذکر (درود وغیرہ) کی مجالس میں خود تشریف لاتے ہیں گمراہی ہے ، کسی مستند روایت سے یہ عقیدہ ثابت نہیں ہے ،مذکورہ شعر اسی عقیدہ پر مبنی ہے ،لہذا اس جیسے اشعار کو پڑھنا جائز نہیں ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْأَيُّهُمْيَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ."
(سورة آل عمران آية: 44)
ترجمہ:
"اور آپ ان لوگوں کے پاس نہ تو اس وقت موجود تھے جب کہ وہ (قرعہ کے طور پر) اپنے اپنے قلموں کو (پانی میں) ڈالتے تھے کہ ان سب میں کون شخص (حضرت مریم کی) کفالت کرے اور نہ آپ ان کے پاس اس وقت موجود تھے جب کہ باہم اختلاف کررہے تھے۔"
صحیح بخاری میں ہے:
"قال كعب: فما رجل يريد أن يتغيب إلا ظن أن سيخفى له، ما لم ينزل فيه وحي الله".
(كتاب المغازي، باب حديث كعب بن مالك، ج:6، ص:3، ط:دار طوق النجاة)
ترجمہ:
"حضرت کعب فرماتے ہیں (یعنی فوج کی کثرت کی وجہ سے) اگر کوئی شخص اس خیال سے شریک نہ ہوتا کہ جب تک وحی نازل نہ ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں ہوسکتی تو اس کا یہ خیال صحیح ہوتا۔"
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الخانية والخلاصة لو تزوج بشهادة الله ورسوله لا ينعقد ويكفر لاعتقاده أن النبي يعلم الغيب."
(کتاب النكاح، ج:3، ص:94، ط:دار الكتاب الاسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144508102194
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن