زید نے 2021 میں 8 لاکھ کا سونا اپنی بیوی کے لیے لیا، لیکن 2024ء تک زکوٰۃ ادا نہیں کی، اب زکوٰۃ کس حساب سے ادا کرے، 8 لاکھ کے حساب سے یا آج کے ریٹ کے حساب سے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی کی ملکیت میں موجود سونا ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہے، یا سونے کے ساتھ ضرورت سے زائد کچھ نقدی یا چاندی یا مالِ تجارت بھی موجود ہے تو اس پر زکات واجب ہے، اور گزشتہ سالوں میں سونے کی زکوٰۃ واجب ہونے کے باوجود نہیں ادا کی تو اب جس دن زکوٰۃ ادا کی جائے گی اس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا، سابقہ زمانے کی قیمت کا نہیں، پہلے سال کی زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد جو سونا بچ جائے اس سے دوسرے سال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اس طرح بعد کے سالوں کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔
بدائع الصانع میں ہے:
"إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى."
(كتاب الزكاة، فصل شرائط فرضية الزكاة، الشرائط التي ترجع على من عليه المال، 7/2، ط: دار الكتب العلمية)
حاشية الشرنبلالي علي درر الحكام شرح غرر الأحكام ميں هے:
"لأن اعتبار القيمة في السائمة يوم الأداء بالاتفاق والخلاف في زكاة المال فتعتبر القيمة وقت الأداء في زكاة المال على قولهما وهو الأظهر وقال أبو حنيفة يوم الوجوب كما في البرهان."
(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، 181/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)
فتاوی مفتی محمود میں ہے:
"سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین کہ مجھ پر تقریباً تین سال بیشتر زکوۃ واجب تھی، مگر بوجہ مجبوریوں کے زکوۃ وقت کے مطابق ادا نہ کر سکا، جس وقت زکوۃ واجب تھی ، اس وقت سونے کا ریٹ تقریبا ۱۱۵ روپیہ فی تولہ تھا ، مگر آج تقریباً ۱۳۵ روپیہ فی تولہ ہے، یہ بھاؤ ہر سال زیادہ ہوتا گیا ہے بموجب احکام شریعت مجھ پر کس وقت کے حساب سے زکوۃ واجب ہو گی ۔
جواب: بھاؤ کا اعتبار نہیں ،جس وقت زکوۃ دینے لگا تو جملہ مال کا چالیسواں حصہ زکوۃ کی نیت سے دے گا یا اس کی قیمت چاہے قیمت گذشتہ کی نسبت کم پڑتی ہو یا زیادہ ادا کرنے کے دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔"
(کتاب الزکوٰۃ، زکوٰۃ کے واجب ہونے کے شرط کا بیان، 238/3، ط: جمعیۃ کمپوزنگ سنٹر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100103
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن