بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سنت عمل کے لیے معیار اور ترکِ سنت و خلافِ سنت میں فرق


سوال

 1:میرا سوال یہ ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہو گا، کہ ہمارا کونسا عمل سنت کے مطابق ہے اور کونسا سنت کے خلاف ہے؟ مطلب کن افعال کو سنت اور کن کو خلافِ سنت کہا جائے گا؟ اس کا اگر کوئی ضابطہ ہو تو بتا دیا جائے۔

2:آخری سوال یہ ہے کہ خلافِ سنت اور ترکِ سنت کے درمیان کیا فرق ہے؟

جواب

1:ہمارے روز مرہ کے وہ تمام افعال جو ہم ثواب کی نیت سے اور شریعت کا حکم سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں اگر اس کا ثبوت  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ، خلفا ئے راشدین یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   سے قولاً یا فعلاً ہوتا ہو، یا اُن کے قول و فعل سے تاکید و تائید ہوتی ہو تو اِس صورت میں ہمارے اعمال و افعال سنت کے موافق یا مطابق ہوں گے، ورنہ خلافِ سنت  اور بدعت ہوں گے۔

2:ترکِ سنت عام ہے، اور خلافِ سنت خاص ہے، اِسی نسبت کی وجہ سے خلاف سنت اور ترکِ سنت میں مختلف حیثیتوں سے فرق آتا ہے، ذیل میں تفصیل درج ہے:

۱:خلافِ سنت اُس عمل کو کہا جاتا ہے جس کا ثبوت شریعت سے نہ ہوتا ہےاور انسان اپنی سوچ و فکر کے مطابق اُس فعل و عمل کو شرع سے ثابت ثواب کا کام سمجھ کر سرانجام دے، اِس صورت میں خلافِ سنت عمل کو "بدعت" بھی کہاجاتا ہے۔جبکہ اِس کے بنسبت ترکِ سنت عام ہے ، یعنی  جہاں ترکِ سنت  پایا جائے وہاں بدعت کا اطلاق ہونا ضروری نہیں ہے۔

۲:خلافِ سنت جو سنن مؤکدہ / سنن ہدیٰ(جو  امورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ عبادت کیے ہوں اُن ) کے ترک کرنے پر مشتمل ہو۔جبکہ ترکِ سنت عام ہے خواہ سنن مؤکدہ کو چھوڑا جائے یا   سنن غیر مؤکدہ/ سنن زوائد یا سنن عادیہ( جو آپ صلی اللہ علیہ نے بطورِ عادت کیے ہوں، اُن) کوترک کیا جائے۔

۳:اِسی طرح خلافِ سنت عمل شرعاً مذموم اور اِس میں مبتلاء شخص قابلِ ملامت ہوگا، جبکہ ترکِ سنت کبھی قابلِ مؤخذاہ ہوگا جبکہ بدعت کا ارتکاب کرے یا سننِ ہدیٰ کو ترک کیا جائے۔ اور بسااقات مذموم  نہ ہوگا، جیسے سنن عادیہ کو ترک کیا جائے،  کیوں کہ سنن عادیہ کا تارک لائقِ ملامت نہیں۔

الموافقات للشاطبیؒ میں ہے:

"يطلق لفظ "السنة" على ما جاء منقولا عن النبي -صلى الله عليه وسلم- على الخصوص، مما لم ينص1 عليه في الكتاب العزيز، بل إنما نص عليه من جهته عليه الصلاة والسلام، كان بيانا لما في الكتاب أو لا.

ويطلق أيضا في مقابلة البدعة؛ فيقال: "فلان على سنة" إذا عمل على وفق ما عمل عليه النبي -صلى الله عليه وسلم- كان ذلك مما نص عليه في الكتاب أو لا، ويقال: "فلان على بدعة" إذا عمل على خلاف ذلك، وكأن هذا الإطلاق إنما اعتبر فيه عمل صاحب الشريعة؛ فأطلق عليه لفظ السنة من تلك الجهة، وإن كان العمل بمقتضى الكتاب.

ويطلق أيضا لفظ السنة على ما عمل عليه الصحابة، وجد ذلك في الكتاب أو السنة أو لم يوجد؛ لكونه اتباعا لسنة ثبتت عندهم لم تنقل إلينا، أو اجتهادا مجتمعا عليه منهم أو من خلفائهم؛ فإن إجماعهم إجماع، وعمل خلفائهم راجع أيضا إلى حقيقة الإجماع من جهة حمل الناس عليه حسبمااقتضاه النظر المصلحي عندهم؛ فيدخل تحت هذا الإطلاق المصالح المرسلة والاستحسان، كما فعلوا في حد الخمر، وتضمين الصناع وجمع المصحف، وحمل الناس على القراءة بحرف واحد من الحروف السبعة، وتدوين الدواوين، وما أشبه ذلك.  ويدل على هذا الإطلاق قوله عليه الصلاة والسلام: "عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين" ."

(كتاب الأدلة الشرعية، ج4، ص:289، ط:دار ابن عفان)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في السنة وتعريفها. ‌والسنة ‌نوعان: سنة الهدي، وتركها يوجب إساءة وكراهية كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك كسير النبي - عليه الصلاة والسلام - في لباسه وقيامه وقعوده. والنفل ومنه المندوب يثاب فاعله ولا يسيء تاركه، قيل: وهو دون سنن الزوائد.

ويرد عليه أن النفل من العبادات وسنن الزوائد من العادات، وهل يقول أحد إن نافلة الحج دون التيامن في التنعل والترجل، كذا حققه العلامة ابن الكمال في تغيير التنقيح وشرحه.

أقول: فلا فرق بين النفل وسنن الزوائد من حيث الحكم؛ لأنه لا يكره ترك كل منهما، وإنما الفرق كون الأول من العبادات والثاني من العادات، لكن أورد عليه أن الفرق بين العبادة والعادة هو النية المتضمنة للإخلاص، كما في الكافي وغيره، وجميع أفعاله - صلى الله عليه وسلم - مشتملة عليها كما بين في محله.

وأقول: قد مثلوا لسنة الزوائد أيضا «بتطويله - عليه الصلاة والسلام - القراءة والركوع والسجود» ، ولا شك في كون ذلك عبادة، وحينئذ فمعنى كون سنة الزوائد عادة أن النبي - صلى الله عليه وسلم - واظب عليها حتى صارت عادة له ولم يتركها إلا أحيانا؛ لأن السنة هي الطريقة المسلوكة في الدين، فهي في نفسها عبادة وسميت عادة لما ذكرنا. ولما لم تكن من مكملات الدين وشعائره سميت سنة الزوائد، بخلاف سنة الهدي، وهي السنن المؤكدة القريبة من الواجب التي يضلل تاركها؛ لأن تركها استخفاف بالدين."

(كتاب الطهارة، سنن الوضوء، ج:1، ص:103، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

(ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول.

وفي الرد: "ما أحدث ‌على ‌خلاف ‌الحق المتلقى عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ فافهم."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:560، ط:سعيد)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144606100332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں