بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت دعوت ولیمہ کے لیے نیت ہونا ضروری ہے


سوال

اگر نکاح کے بعد دُلہا اور دُلہن ہمبستری کر لیں اور اعلانیہ ولیمہ نہ کیا جاۓ ، لیکن دُلہے کا باپ اپنی طرف سے کُچھ لوگوں کو دوپہر اور کُچھ لوگوں کو رات کا کھانا کھلا دے، تو کیا یہ دعوت ولیمے میں شُمار ہو گی ،جب کہ اُس وقت دُلہے کے باپ کو یہ نہ پتہ ہو کہ اُس کے بیٹے اور بہُو نے شب زفاف منا لی ہے ،کیا یہ دعوت ولیمہ میں شمار ہوگی یا نہیں؟ً

جواب

ولیمہ کے مسنون وقت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:

(1)عقد کے وقت (2)نکاح کے بعد  رخصتی سے پہلے(3) رخصتی کے بعد  شب زفاف سے پہلے (4)شب زفاف کے بعد  (5)عقد سے دخول کے بعد تک ۔

ان میں سے راجح اور جمہور علماء کرام کا قول یہ ہے کہ  ولیمہ کا مسنون وقت میاں بیوی کے اکٹھا ہونے کے بعد یعنی   شب زفاف اور دخول کے بعد ہے،  علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  شبِ زفاف سے پہلے کے کھانے کو عربی میں ’’ولیمہ‘‘ نہیں کہتے، اسی طرح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شبِ زفاف کے بعد ولیمہ کیا، اسی حدیث سے فقہاء ومحدثین اور شارحین نے استدلال کیا ہے کہ ولیمہ کا مسنون وقت  شبِ زفاف کے بعد ہے، اور عام طور پر شارحین نے دخول کی تصریح بھی ہے کہ شبِ زفاف میں دخول کے بعد ولیمہ کا مسنون وقت ہے۔

  البتہ علامہ عینی  رحمہ اللہ نے  بعض مالکیہ سے   نقل کیا ہے کہ’’ ولیمہ شب زفاف کے بعد اور دخول سے پہلے ہوجائے تو یہ بھی مستحب ہے، اور اسی پر آج کل لوگوں کا عمل ہے‘‘نیز خلوتِ صحیحہ بہت سے احکامات میں چوں کہ دخول کے قائم مقام ہے، اس لیے بھی اگر شبِ زفاف میں خلوتِ صحیحہ ہوجائے اور دخول نہ ہو تو بھی اس کے بعد ہونے والے ولیمہ کو  ’’ولیمہ مسنونہ‘‘  کہا جاسکتا ہے، البتہ افضل دخول کے بعد ہی ہے۔

نیز واضح رہے کہ مسنون  ولیمہ کے لیے کھانا کھلانے والے کی طرف سے سنت ولیمہ کی نیت بھی ہونا شرط ہے،کھانا کھلایا گیا سنت ولیمہ کی نیت نہیں کی تو ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہوگی۔

صورت مسئولہ میں اگر دلہے کے والد نے مہمانوں کو ولیمے کی نیت سے کھانا کھلایا ہو،تو ولیمے کی سنت ادا ہوگئی ،اگر چہ دلہے کے والد کو دلہااور دلہن کے شب زفاف  منانے کا علم نہ ہو،اگر دلہے کے والد نے مہمانوں کو مطلق دعوت کی ہو اور ولیمہ کی نیت نہ کی ہو،تو ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہوئی ہے۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه."

(‌‌كتاب الإيمان، ‌‌‌‌الفصل الأول، 8/1، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

وفيه ایضاً:

"عن أنس  قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ‌بنى ‌بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزا ولحما. رواه البخاري."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب الوليمة، ‌‌الفصل الأول، 960/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

لمعات التنقیح میں ہے:

"لأن النية أصل لجميع الأعمال القلبية والقالبية، وعليها مدار جميع الطاعات والعبادات صحة وثوابا، والمعاملات والمباحات ثوابا كما يأتي تقريره.....قال الخطابي (1): مقتضى العموم فيها أن لا يصح عمل من الأعمال الدينية أقوالها وأفعالها، فرضها ونفلها، قليلها وكثيرها، إلا بنية، ودخل فيها التوحيد الذي هو رأس الأعمال الدينية فلا يصح إلا بقصد إخلاص فيه، انتهى."

(‌‌مقدمة المشكاة، 166/1۔170، ط: دار النوادر، دمشق)

بذل المجهود   میں ہے:

"عن ثابت قال: ذكر تزويج ‌زينب ‌بنت ‌جحش عند أنس بن مالك، فقال: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أولم على أحد من نسائه ما) أي قدر ما (أولم عليها) أي على ‌زينب ‌بنت ‌جحش (أولم بشاة) ويجوز أن يولم بعد النكاح أو بعد الرخصة (2) أو بعد أن يبني بها، والثالث هو الأولى."

(أول كتاب الأطعمة، باب: في استحباب الوليمة للنكاح، 470/11، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فيض الباری میں ہے:

"‌السنة ‌في ‌الوليمة أن تكون بعد البناء، وطعام ما قبل البناء لا يقال له: وليمة عربية."

(كتاب النكاح، باب الوليمة حق، 543/5، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

عمدة القاری  میں ہے:

"وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو ‌عند ‌العقد أو عقيبة؟ أو ‌عند الدخول أو عقيبه؟ أو ‌موسع من ابتداء ‌العقد إلى انتهاء الدخول؟ على أقوال. قال النووي: اختلفوا، فقال عياض: إن الأصح ‌عند المالكية استحبابه بعد الدخول، وعن جماعة منهم: أنها ‌عند ‌العقد، وعند ابن حبيب: ‌عند ‌العقد وبعد الدخول، وقال في موضع آخر: يجوز قبل الدخول وبعده، وقال الماوردي: ‌عند الدخول، وحديث أنس: فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروسا بزينب فدعي القوم، صريح أنها بعد الدخول، واستحب بعض المالكية أن تكون ‌عند البناء ويقع الدخول عقيبها، وعليه عمل الناس."

(كتاب النكاح، باب الصفرة للمتزوج، 144/20، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں