بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سورۃ نور کی آیت کی وضاحت


سوال

سورۃ النور میں الخبیثات للخبیثین ..الآیة۔ اس آیت میں قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے خبیث بدکار عورتیں فحاش مردوں کیلئے ہیں ، سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیگمات کافر تھیں اور اسی طرح فرعون کی بیوی مومنہ  اگر یہ قاعدہ کلیہ ہے تو ان پر جاری کیوں نہیں ہوا ؟

جواب

صورت مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ جملے کی بنیاد دراصل قرآن کریم کی درجِ ذیل آیت ہے:

"الْخَبِيثاتُ ‌لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثاتِ وَالطَّيِّباتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّباتِ."

جس کاترجمہ یہ ہےکہ:

’’گندی عورتیں گندے لوگوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔‘‘

اس آیت کی مفسرین کرام نے مختلف تفسیرات بیان کی ہیں،اکثرمفسرین نے جس رائے کو اختیار کیا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ بری باتیں اور برے کلمات برے لوگوں (مردوں اور عورتوں) کے لیے ہیں،اور برے لوگ(مرداور عورتیں)برے کلمات کے لیے ہیں،یعنی برے کام برے لوگ کرتےہیں،اور برائیاں (مذمت وغیرہ) کے مستحق بھی برے لوگ ہوا کرتے ہیں۔

دوسری ایک تفسیر مفسرین نے یہ بھی بیان کی ہے کہ خبیث عورتیں،خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد،خبیث عورتوں کے لیے ہیں،اسی طرح نیک مرد وعورت ایک دوسرے کے لیے ہیں۔

اس تفسیر میں اولاً تو یہ بات واضح رہےکہ خبیث کی تفسیر فقہاء نے زنا سے بیان کی ہے،یعنی زانی مرد وعورت ایک دوسرے کے لیے ہیں،بالفرض اگر خبیث سے مطلق فسق وفجور مرادلے بھی لیاجائےتو بھی یہ حکم اغلبی(یعنی اکثر اوقات کے حساب سے ہے) یعنی یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ جو بھی برے مرد وعورت ہوں گے وہ نیک مرد و عورت کو مل ہی نہیں سکتے ،بلکہ کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ایسا ہو بھی جاتاہے،بہرحال اگر نیک مردوعورت اتفاق سے برے مرد وعورت کو مل جائےتو اس سے دوسرے نیک شخص کا برا ہونا ہرگز لازم نہیں آتا؛کیوں کہ اچھائی یا برائی کا مدار خوداپنے اعمال وافعال کے ساتھ ہے، دوسرے کے اعمال کے ساتھ نہیں ہے،تاہم اگر دونوں میں سے کوئی ایک غلط کام کرے تودوسرےکو اسےپیارومحبت سے سمجھاکرنیکی کی ترغیب دینی چاہیے،لہذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس سے زناء کی نفی ہے ،یا یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ اکثریہ ہے،یا اس آیت میں طبائع کے میلان کو ذکر کیا ہے کہ جس کی طبیعت بری  ہو گی اس کی رغبت بھی  بری طبیعت والوں کی طرف ہوتی ہے اور طبیعت کے اچھا یا برا ہونے میں اسلام یا کفر کا کوئی تعلق نہیں تو اس صورت میں اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْن."

"اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے نوح (علیہ السلام) کی بی بی کا اور لوط (علیہ السلام) کی بی بی کا حال بیان فرماتا ہے وہ دونوں ہمارے خاص بندوں میں سے دو بندوں کے نکاح میں تھیں۔"

"وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ."

"اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں (کی تسلی) کے لئے فرعون کی بی بی (حضرت آسیہ ) کا حال بیان کرتا ہے۔"

معارف القرآن میں ان دو آیتوں کے ذیل میں حضرت مفتی شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں:

"ان سب مثالوں سے یہ واضح کردیا کہ ایک مومن کا ایمان اس کے کسی کا فرعزیز کے کام نہیں آسکتا اور ایک کافر کا کفر اس کے کسی مومن عزیز کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس لئے انبیاء و اولیا کی بیویاں اس پر بےفکر نہ ہوں کہ ہمیں ہمارے شوہروں کی وجہ سے نجات ہو ہی جائے گی اور کسی کافر ،فاجر کی بیوی یہ فکر نہ کرے کہ اس کا کفر میرے لئے کسی مضرت کا سبب بن جائے گا بلکہ ہر ایک مرد و عورت کو اپنے ایمان وعمل کی فکر خود کرنا چاہئے۔"

(سورۃ التحریم ،ص:605،ج:8،ط:مکتبہ معارف القرآن)

تفسير مظهری میں ہے:

"وقال ابن زيد الخبيثات من النساء للخبيثين من الرجال يعنى غالبا والخبيثون من الرجال للخبيثات من النساءوالطيبات من النساء للطيبين من الرجال والطيبون من الرجال للطيبات من النساء يعنى في الأغلب."

(سورۃ النور،ص:458،ج:6،ط:مكتبة الرشدية)

التفسیر المنیر"میں ہے:

"‌الخبيثات ‌للخبيثين والخبيثون للخبيثات والطيبات للطيبين والطيبون للطيبات. أي النساء الزواني الخبيثات للخبيثين من الرجال، والخبيثون الزناة من الرجال للخبيثات من النساء؛ لأن اللائق بكل واحد ما يشابهه في الأقوال والأفعال، ولأن التشابه في الأخلاق والتجانس في الطبائع من مقومات الألفة ودوام العشرة. وذلك كقوله تعالى: الزاني لا ينكح إلا زانية أو مشركة، والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك."

(سورۃ النور،ص:195،ج:18،ط:دار الفكر)

"تفسیر ابن کثیر"میں ہے:

"قال ابن عباس: الخبيثات من القول للخبيثين من الرجال، والخبيثون من الرجال للخبيثات من القول. والطيبات من القول للطيبين من الرجال، والطيبون من الرجال للطيبات من القول...ووجهه بأن الكلام القبيح أولى بأهل القبح من الناس، والكلام الطيب أولى بالطيبين من الناس، فما نسبه أهل النفاق إلى عائشة هم أولى به، وهي أولى بالبراءة والنزاهة منهم."

(سورۃ النور،ص:32،ج:6،ط:دار الکتب العلمية) 

تفسیر معارف القرآن میں ہے:

"اس آخری آیت میں اول تو عام ضابطہ یہ بتلا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے طبائع میں طبعی طور پر جوڑ رکھا ہے۔ گندی اور بدکار عورتیں بدکار مردوں کی طرف اور گندے بدکار مرد گندی بدکا عورتوں کی طرف رغبت کیا کرتے ہیں ۔ اسی طرح پاک صاف عورتوں کی رغبت پاک صاف مردوں کی طرف ہوتی ہے اور پاک صاف مردوں کی رغبت پاک صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہےاور ہر ایک اپنی اپنی رغبت کیمطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے اور قدرۃً اس کو وہی مل جاتا ہے ۔ اس عام عادت کلیہ اور ضابطہ سے واضح ہو گیا کہ انبیاء علیہم السلام جو دنیا میں پاکی اورصفائی ظاہری و باطنی میں مثالی شخصیت ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو ازواج بھی اُنکے مناسب عطا فرماتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ علم جو تمام انبیاء کے سرار ہیں ان کو ازواج مطہرات بھی اللہ تعالیٰ نے پاکی اور صفائی ظاہری اور اخلاقی برتری میں آپ ہی کی مناسب شان عطا فرمائی ہیں اور صدیقہ عائشہ اُن سب میں ممتاز ہیں، اُن کے بارے میں شک و شبہ وہی کر سکتا ہے جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ پر ایمان نہ ہو  اور حضرت نوح حضرت لوط علیہما السلام کی بیبیوں کے بارے میں جو قرآن کریم میں اُن کا کافر ہونا مذکور ہے تو انکے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ کافر ہونے کے باوجود فسق و فجور میں مبتلا نہیں تھیں ، حضرت ابن عباس نے فرمایا "ما بغت امرأة نبی قط " یعنی کسی نبی کی عورت نے کبھی زنا نہیں کیا (ذکر فی الدر المنثور ) اس سے معلوم ہوا کہ کسی نبی کی بیوی کا فر ہو جائے اسکا تو امکان ہے مگر بد کار فاحشہ ہو جائے یہ ممکن نہیں۔ کیونکہ بدکاری طبعی طور پر موجب نفرت عوام ہے کفر طبعی نفرت کا موجب نہیں ۔" 

(سورۃ نور،ج:6، ص:384، ط: مکتبہ معارف القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں