بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سورج کا عرش کے نیچے سجدہ کرنا


سوال

حدیث میں ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے ، تو پھر دوسرے ممالک میں کیسے  صبح ہوجاتی ہے؟  وضاحت فرمائیں ۔

جواب

حدیث میں جو آیا ہے کہ سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اس حدیث کی علماء نے مختلف توجیہات بیان کی  ہیں، اسکی سب سے بہترین توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے سورج کی تابعداری مراد ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کےتابع رہتاہے اس سے انسانوں کی طرح سجدہ کرنا مراد نہیں ہے،معارف القرآن میں  ذکرہے:

"غروب آفتاب کی تخصیص اور اس کے بعد زیر عرش جانے اور وہاں سجدہ کرنے اور اگلے دورے کی اجازت مانگنے کے جو واقعات اس روایت میں بتلائے گئے ہیں وہ پیغمبرانہ موثر تعلیم کے مناسب بالکل عوامی نظر کے اعتبار سے ایک تمثیل ہے۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ انسان کی طرح زمین پر سجدہ کرے، اور نہ سجدہ کرنے کے وقت آفتاب کی حرکت میں کچھ وقفہ ہونا لازم آتا ہے۔ اور نہ یہ مراد ہے کہ وہ دن رات میں صرف ایک ہی سجدہ کسی خاص جگہ جا کر کرتا ہے، اور نہ یہ کہ وہ صرف غروب کے بعد تحت العرش جاتا ہے۔ مگر اس انقلابی وقت میں جبکہ سب عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ آفتاب ہم سے غائب ہو رہا ہے اس وقت بطور تمثیل ان کو اس حقیقت سے آگاہ کردیا گیا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت آفتاب کے زیر عرش تابع فرمان چلتے رہنے سے ہو رہا ہے، آفتاب خود کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتا"۔

(معارف القران ،ج :7  ،ص:387،مکتبہ معارف القرآن)

علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اپنے رسالے سجود الشمس میں اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :

" اگر یوں کہا جاتا تو  کیا حرج تھا کہ اس حدیث میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فی الحقیقت خدا وند ذوالجلال کی عظمت و جبروت اور مخلوقات میں سے بڑی سے بڑی مخلوق کی عجز و بیچارگی کو واضح فرمایا ہے اور ربط ِحادث بالقدیم کے اس مسئلہ کی تقریر کی ہے جسکو محققین ام المسائل کہتے ہیں ۔اور جس کا حاصل یہ ہے کہ مخلوقات کو جو علاقہ (استفادہ وجود کا) اپنے خالق جلِ علا سے ہے وہ اگر بالفرض ایک لمحہ کے لئے بھی منقطع ہو جائے تو عالم میں سے کسی چیز کا وجود اسی طرح باقی نہیں رہ سکتا جس طرح آفتاب کی شعاعوں کا تعلق زمین سے رک جانے پر زمین کا روشن رہنا ممکن نہیں اسی لئے اسلام کا یہ قطعی عقیدہ ہے کہ ہر قسم کے وجود اور تمامی حرکات و سکنات کی باگ فقط خدائے واحد کے قبضہ اقتدار میں ہے یہاں تک کہ کوئی متنفس جو سانس لیتا ہے اور ہر پتہ جو درخت پر ہلتا ہے اور ہر ایک تنکا جو اپنی جگہ سے سرک جاتا ہے اس میں بھی اسی کی اجازت اور اسی کا ارادہ درکار ہے ۔وه آفتاب درخشاں (جس کو ان تمام اجرام علویہ کا بادشاہ کہنا چاہیے جو کل اجسام سفلیہ پر اپنی حکومت رکھتے ہیں) ، اس وحدہ لا شریک کی ادائے طاعت کے لیے محیط کے پردہ سے باہرآتاہے اور دنیا کا یہ سب سے زیادہ  روشن ستارہ جس کے محکم نظام حرکت نے حضرت خلیل اللہ کے مقابلہ میں نمرود ومغرور کو ہکاّبکاّ کردیا اور جس کےآب وتاب کے سامنے سباکی بہت بڑی ملکہ (بلقیس )نے، باوجود (اوتيت من كل شئ ولها عرش عظيم)كي شان کے جبین نیاز جھکادی اور سر سجود خم کر دیا۔ جب مشرق سے مغرب کو روانہ ہوتا ہے اور ہر وقت روانہ ہوتا رہتا ہے ، تو اپنی حرکت کی ہر ہر آن میں اور مسافت کے ہر ہر قدم پر عرش کے نیچے اور رب العرش کے سامنے سجد ہ میں گرتا ہے اور (علی اختلاف الآراء)حالا یا قالا ہر لحظہ آگے بڑھنے کی اجازت طلب کرتا رہتا ہے یہ مجال نہیں کہ اس عزیز و علیم کا اذن حاصل کئے بغیر وہ ایک قدم ادھر یا ادھر رکھ سکے چنانچہ صبح سے شام اور شام سے صبح تک جو چکرچو بیسں گھنٹہ میں وہ پورا کرتا ہے اس میں ایک ساعت بھی ایسی نہیں آتی کہ وہ رب العزت کے حکم سے بے نیاز ہو سکے ۔ یا اس سے سرتابی کا خیال لا سکے ۔ اس کا یہ سلسلہ رفتار اسی طرح روز مرہ چل رہا ہے اور یونہی ہمیشہ چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہ اہل اسلام کے معتقدات کے موافق امر الٰہی آن پہنچے ۔ اور عالم کی تباہی کی گھڑی نزدیک آجائے اور اپنے جس مستقر (جائے قرار وسکون) کی تلاش میں یہ آفتاب سرگرداں رہتا تھا اس کو پاچکے۔ اس وقت اس کو حکم ہوگا کہ قدم آگے مت اٹھاؤ۔ اپنی حرکت کو روک لواور جس طرف سے آئے تھے اسی طرف پھر الٹے پاؤں لوٹ جاؤ".

(تالیفات عثمانی ،رسائل ثلاثہ ص:108-109،ادارہ اسلامیات لاھور)

تفسیر  مظہری میں ہے :

"والقول بان الحديث من المتشابهات او ان المراد بالسجود هو الانقياد او نحو ذلك".

(تفسیر مظہری،سورہ یس ،آیت نمبر 38،ج8،ص41،ط،داراحیا تراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں