بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ رحمن کو رقیہ کے طورپر سننےکا حکم


سوال

سورۃ رحمن رقیہ کے طور پر سننا اور تصور رکھنا کہ اس سے اللہ پاک ضرورشفا عطاء کرئیں گے، اور تجربہ کے مطابق دیکھا بھی گیا ہے کہ اللہ تعالی نے  شفاءبھی  رکھی ہے  تو ایسا کرنا گناہ یا بدعت میں تو نہیں آجائےگا؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک نازل فرمایا اور اس میں شفاءرکھی ہے، خود باری تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

"وَنُنَزِّلُ مِنْ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَاراً(الاسراء: 82)"

"ترجمہ:  اور ہم اتارتے ہیں قرآن میں سے وہ جس سے روگ (بیماری) دفع ہوں اور وہ رحمت ہے مؤمنین کے لیے اور گناہ گاروں کو تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔"

اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی قرآن سے اپنی بیماریوں کا علاج کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس سانپ کے ڈسے کو لایا گیا، آپ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر پھونک دی، اس کو صحت ہو گئی، بعد میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ لایا گیا تو آپ نے تصویب فرمائی، لہذا قرآن سے شفا حاصل ہونا یا کرنا کوئی قابلِ تعجب امر نہیں۔

بہتر یہ ہے کہ خود کلامِ مجید پڑھا جائے، جو شخص بھی قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کے ساتھ  پڑھے تو ان شاء اللہ باری تعالیٰ اسے شفا ءعطا ءفرمائیں گے، اور اگر خود نہیں پڑھ سکتے تو کسی صحیح قراءت کرنے والے شخص سے تلاوت کرواکر دم کروا سکتے ہیں۔

صورت مسئولہ میں سورۃ رحمن کارقیہ کے طور پر سننا اور تصور رکھنا کہ اس سے اللہ پاک ضرور شفا ء عطاء فرمائے گا  (توضرور   شفاء دینے سے اگر پڑھنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ تعالی پر شفاء دینا لازم ہے تو یہ عقیدہ  رکھنا صحیح نہیں  ہے اور اگر  یہ عقیدہ نہ ہو بلکہ وہ اس بنیاد پر کہتاہے کہ یہ اللہ  تعالی کا کلام ہے  اور اس میں اللہ تعالی نے شفا ء رکھی ہے تو پھر صحیح ہے )ایسا کر نا نہ گناہ ہے اور نہ بدعت،بلکہ ایسا تصور کرنا مستحسن  اور مطلوب ہے ،اور بندہ اللہ تعالی پر جس طرح گمان  رکھتا ہے اللہ تعالی ان کے ساتھ اس طرح معاملہ کرتا ہے ،لہذا کامل یقین کے ساتھ سننا چاہیے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه:أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أتوا على حي من أحياء العرب فلم يقروهم، فبينما هم كذلك، إذ لدغ سيد أولئك، فقالوا: هل معكم من دواء أو راق؟ فقالوا: إنكم لم تقرونا، ولا نفعل حتى تجعلوا لنا جعلا، فجعلوا لهم قطيعا من الشاء، فجعل يقرأ بأم القرآن، ويجمع بزاقه ويتفل، فبرأ فأتوا بالشاء، فقالوا: لا نأخذه حتى نسأل النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه فضحك وقال: (وما أدراك أنها رقية، خذوها واضربوا لي بسهم)."

(كتاب الطب، باب الرقى بفاتحة الكتاب، 2166/5، الرقم:5404، ط:دار اليمامة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں