بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سورۃ الحجرات آیت نمبر:2 کی تشریح


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ درج ذیل کے بارے میں : قرآن کریم کی آیت"یا یھا الذین آمنوا لاترفعوا اصواتکم الخ" کی تشریح کرتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ علماء کے سامنے بلند آواز سے بات نہ کی جائے، کیوں کہ علماء انبیاء کے ورثاء ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال رائیگاں چلے جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو تو کیا اس طرح کی کوئی بات درست ہے؟ تسلی بخش جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

"يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن"

ترجمہ:  اے ایمان والو تم اپنی آوازیں پیغمبر (علیہ السلام) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو،  کبھی تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ 

(سورۃ الحجرات، رقم الآیۃ:02، ترجمہ:بیان القرآن)

مذکورہ آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جیسے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ بنو تمیم کے سوار آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ان کا امیر قعقاع بن معبد بن زرارہ کو بنایئے،  عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا نہیں بلکہ اقرع بن حابس کو بنائیے، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ہمیشہ مجھ سے اختلاف کرتے ہو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں آپ  سے اختلاف کا قصد نہیں کرتا، دونوں میں تکرار ہوئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ (اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش قدمی نہ کرو) آخر تک، مذکورہ آیت اگر چہ شانِ نزول کے اعتبار سے خاص ہے،  لیکن مفہوم کے اعتبار سے عام ہے، اور اس کی تشریح میں عام لوگوں کا علماء کے سامنے بلند آواز سے باتیں کرنا، ان کا لحاظ نہ رکھنا بھی داخل ہے۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي ) میں ہے:

"ياأيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ولا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض أن تحبط أعمالكم وأنتم لا تشعرون (2) 

قوله تعالى:" يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي" روى البخاري والترمذي عن ابن أبي مليكة قال: حدثني عبد الله بن الزبير أن الأقرع بن حابس قدم على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر: يا رسول الله استعمله على قومه، فقال عمر: لا تستعمله يا رسول الله، فتكلما عند النبي صلى الله عليه وسلم حتى ارتفعت أصواتهما، فقال أبو بكر لعمر: ما أردت إلا خلافي. فقال عمر : ما أردت خلافك، قال: فنزلت هذه الآية:" يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي" قال: فكان عمر بعد ذلك إذا تكلم عند النبي صلى الله عليه وسلم لم يسمع كلامه حتى يستفهمه.

معنى الآية الأمر بتعظيم رسول الله صلى الله عليه وسلم وتوقيره، وخفض الصوت بحضرته وعند مخاطبته، أي إذا نطق ونطقتم فعليكم ألا تبلغوا بأصواتكم وراء الحد الذي يبلغه بصوته، وأن تغضوا منها بحيث يكون كلامه غالبا لكلامكم، وجهره باهرا لجهركم، حتى تكون مزيته عليكم لائحة، وسابقته واضحة، وامتيازه عن جمهوركم كشية الأبلق. لا أن تغمروا صوته بلغطكم، وتبهروا منطقه بصخبكم. وفي قراءة ابن مسعود" لا ترفعوا بأصواتكم" وقد كره بعض العلماء رفع الصوت عند قبره عليه السلام. وكره بعض العلماء رفع الصوت في مجالس العلماء تشريفا لهم، إذ هم ورثة الأنبياء."

(سورۃ الحجرات، رقم الآیۃ:2، ج:16، ص:306/307، ط:دارالکتب المصریۃ)

تفسیرِ معارف القرآن (لمفتی محمد شفیع العثمانیؒ ، المتوفی:1976ء) میں ہے:

علمائے دین اور دینی مقتداؤں کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے :

 بعض علماء نے فرمایا ہے کہ علماء و مشائخ دین کا بھی یہی حکم ہے کیوں کہ وہ وارث انبیاء ہیں اور دلیل اس کی یہ واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت ابوالدردا کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر کے آگے چل رہے ہیں تو آپ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص کے آگے چلتے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے اور فرمایا کہ دنیا میں آفتاب کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا جو انبیاء کے بعد ابوبکر سے بہتر و افضل ہو (روح البیان ازکشف الاسرار) اس لیے علماء نے فرمایا کہ اپنے استاد اور مرشد کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے۔ 

(آیت)اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ، لفظان تحبطمفعول ہے لا ترفعواکا جس میں حکم کی علت بتلائی گئی ہے۔ بخدف مصدر یعنی خشیتہ ان تحبط معنے آیت کے یہ ہوئے کہ اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو، بسبب اس خطرہ اور خوف کے کہ کہیں تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ اس جگہ کلیاتِ شرعیہ اور اصولِ مسلمہ کے اعتبار سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ حبط ِاعمال یعنی اعمالِ صالحہ کو ضائع کردینے والی چیز تو باتفاق اہل سنت والجماعت صرف کفر ہے۔ کسی ایک معصیت اور گناہ سے دوسرے اعمال صالحہ ضائع نہیں ہوتے اور یہاں خطاب مومنین اور صحابہ کرام کو ہے اور لفظیایھا الذین امنواکے ساتھ ہے جس سے اس فعل کا کفر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو حبطِ اعمال کیسے ہوا؟ دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان ایک فعلِ اختیاری ہے جب تک کوئی شخص اپنے اختیار سے ایمان نہ لائے مومن نہیں ہوتا، اسی طرح کفر بھی امر اختیاری ہے جب تک کوئی شخص اپنے قصد سے کفر کو اختیار نہ کرے،  وہ کافر نہیں ہوسکتا اور یہاں آیت کے آخر میں یہ تصریح ہے کہانتم لاتشعرون، یعنی تمہیں خبر بھی نہ ہو تو حبط اعمال جو خالص کفر کی سزا ہے وہ کیسے جاری ہوئی۔

سیدی حضرت حکیم الامت نے بیان القرآن میں اس کی توجیہ ایسی بیان فرمائی ہے جس سے یہ سب اشکالات و سوالات ختم ہوجاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ مسلمانوں ! تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے اور بےمحابا جہر کرنے سے بچو،  کیوں کہ ایسا کرنے میں خطرہ ہے کہ تمہارے اعمال حبط اور ضائع ہوجائیں اور وہ خطرہ اس لیے ہے کہ رسول سے پیش قدمی یا ان کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کر کے غالب کرنا ایک ایسا امر ہے جس سے رسول کی شان میں گستاخی اور بےادبی ہونے کا بھی احتمال ہے جو سبب ہے ایذائے رسول کا اگرچہ صحابہ کرام سے یہ وہم بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ بالقصد کوئی ایسا کام کریں جو آپ کی ایذا کا سبب بنے ، لیکن بعض اعمال و افعال جیسے تقدم اور رفعِ صوت اگرچہ بقصد ایذا نہ ہوں ،پھر بھی ان سے ایذا کا احتمال ہے اسی لیے ان کو مطلقاً ممنوع اور معصیت قرار دیا ہے اور بعض معصیتوں کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے کرنے والے سے توبہ اور اعمالِ صالحہ کی توفیق سلب ہوجاتی ہے اور وہ گناہوں میں منہمک ہو کر انجام کار کفر تک پہنچ جاتا ہے جو سبب ہے حبط اعمال کا، کسی اپنے دینی مقتداء استاد یا مرشد کی ایذا رسانی ایسی ہی معصیت ہے جس سے سلب توفیق کا خطرہ ہوتا ہے، اس طرح یہ افعال یعنی تقدم علی النبی اور رفع الصوت ایسی معصیت ٹھہریں کہ جن سے خطرہ ہے کہ توفیق سلب ہوجائے اور یہ خذلان آخر کار کفر تک پہنچا دے جس سے تمام اعمال صالحہ ضائع ہوجاتے ہیں اور کرنے والے نے چونکہ قصدا ایذا کا نہ کہا تھا اس لیے اس کو اس کی خبر بھی نہ ہوگی کہ اس ابتلاءِ کفر اور حبط ِاعمال کا اصل سبب کیا تھا؟  بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی صالح بزرگ کو کسی نے اپنا مرشد بنایا ہو اس کے ساتھ گستاخی و بےادبی کا بھی یہی حال ہے کہ بعض اوقات وہ سلب توفیق اور خذلان کا سبب بن جاتی ہے جو انجام کار متاع ایمان کو بھی ضائع کردیتی ہے نعوذ بالله منه۔ "

(سورۃ الحجرات، رقم الآیۃ:02، ج:8، ص:100، ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں