بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازمین کا اضافی کام پر کمیشن لینے کا حکم


سوال

ایک سرکاری ملازم اپنے اضافی کام کے لیے اپنا فکس شدہ کمیشن لے سکتا ہے اس کے سارے ہم منصبوں کے لئے کمیشن فکس ریٹ کا ہےاور اس سارے محکمے کو پتہ ہے کہ کس کا کتنا حصہ ہےمزید یہ کہ اگر وہ اپنا حصہ نہ لے تو تقسیم کرنے والا وہ حصہ خود رکھ لیتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنا حصہ لے کہ نہ لے ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر سرکاری ملازمین کے لیے حکومت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے اضافی کام کرنے  کا طے شدہ کمیشن مقرر ہے  اور یہ کام مذکورہ ملازمین کی آفیشل ڈیوٹی  میں شامل نہیں ہیں تو  ملازمین کے لیے اس کا لینا جائز ہے، اور اگر متعلقہ ادارے اور حکومت سے مقرر نہیں ہے تو لینا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و لايجوز أخذ المال ليفعل الواجب."

(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: ۵،  صفحہ:۳۶۲،  ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة".

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ج: ۶، صفحہ: ۶۳، ط: ایچ، ایم، سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں