بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا شوہر کے انتقال کے بعد سسر کے بھائی سے نکاح کا حکم


سوال

کیا ایک خاتون کا شوہر کی وفات کے بعد اپنے سسر کے بھائی سے نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ خاتون اور سسر کے بھائی کا آپس میں کوئی خونی یا رضاعی رشتہ نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مرد اور عورت کے باہم نکاح کے بعد  عورت کے اصول وفروع (والدین اوپر تک اور اولاد نیچے تک)  مرد پر ،اور مرد کے اصول وفروع عورت پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتے ہیں،  اور ان کے درمیان حرمتِ مصاہرت قائم ہوجاتی ہے، ان سے   نکاح جائز نہیں ہوتا، اس کے علاوہ سسرالی رشتہ داری میں نکاح جائز ہوتا ہے، سسر کا بھائی چونکہ محارم میں شامل نہیں ہے ، اس لیے ان سے نکاح کرنا جائز ہے۔

النتف للفتاوی میں ہے:

"الحرمة المؤبدة بالسبب، وأما السبب فهو على عشرة أوجه وهي  الرضاع والصهرية …" وأما الصهر فهم أربعة أصناف: أحدهم: أبو الزوج والجدود من قبل أبويه وإن علوا، يحرمون على المرأة وتحرم هي عليهم، دخل بها أو لم يدخل بها؛ لقوله تعالى: {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم}. والثاني: أم المرأة وجداتها من قبل أبويها وإن علون، يحرمن على الرجل ويحرم هو عليهن دخل بها أو لم يدخل؛ لقوله تعالى:{وأمهات نسائكم}".

(النتف في الفتاوى للسغدي ، 253،254/1، دار الفرقان)

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"معنى قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] أي: ما وراء ما حرمه الله تعالى... ويجوز الجمع بين امرأة وبنت زوج كان لها من قبل، أو بين امرأة وزوجة كانت لأبيها وهما واحد؛ لأنه لا رحم بينهما فلم يوجد الجمع بين ذواتي رحم."

(فصل أنواع الجمع بين ذوات الأرحام، ج:2، ص:263، ط: العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و ) حرم الجمع ( وطأ بملك يمين بين امرأتين أيتهما فرضت ذكراً لم تحل للأخرى ) أبداً؛ لحديث مسلم: "لاتنكح المرأة على عمتها"، وهو مشهور يصلح مخصصاً للكتاب، فجاز الجمع بين امرأة وبنت زوجها أو امرأة ابنها أو أمة ثم سيدتها؛ لأنه لو فرضت المرأة أو امرأة الابن أو السيدة ذكراً لم يحرم بخلاف عكسه".

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، فروع، ج:3،ص:39، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607101530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں