بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سسر کو کہا: میں نے آپ کی بیٹی کو طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی


سوال

سسر نے داماد سے کسی ضرورت کے لیے قرض پیسے مانگے ، داماد نے دے دیے، واپس مانگنے پر سسر ٹال مٹول کرنے لگا، داماد نے مختلف لوگوں کو جمع کیا کہ معاملہ حل ہوجائے، لیکن بات لڑائی تک پہنچ گئی،  اس دوران  داماد نے سسر سے کہا "میں نےآپ کی بیٹی کو طلاق دی، طلاق دی ،طلاق دی"۔ کیا طلاق ہوگئی ہے؟ جب کہ مذکورہ شخص کی بیوی تین ماہ کے حمل سے ہے، اور ان کی تین اولادیں اور بھی ہیں۔

جواب

طلاق چوں کہ حمل کی حالت میں بھی ہوجاتی ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنے سسر کو جو یہ الفاظ  ”میں نے آپ کی بیٹی کو طلاق دی، طلاق دی،  طلاق دی “ کہے تھے،  ان سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،  بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  اب شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں۔

سنن ابن ماجه  میں ہے:

"٢٠٢٦ - حدثنا محمد بن عمر بن هياج حدثنا قبيصة بن عقبة حدثنا سفيان عن عمرو بن ميمون عن أبيه عن الزبير بن العوام «أنه كانت عنده أم كلثوم بنت عقبة فقالت له وهي حامل طيب نفسي بتطليقة فطلقها تطليقة ثم خرج إلى الصلاة فرجع وقد وضعت فقال ما لها؟ خدعتني خدعها الله ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال سبق الكتاب أجله اخطبها إلى نفسها»"

ترجمہ: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی زوجیت میں ام کلثوم بنت عقبہ تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے ایک طلاق دے کر میرا دل خوش کر دو، لہٰذا انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر وہ نماز کے لیے نکلے جب واپس آئے تو وہ بچہ جن چکی تھیں تو زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے کیا ہو گیا؟ اس نے مجھ سے مکر کیا ہے، اللہ اس سے مکر کرے، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کتاب کی میعاد گزر گئی" (یعنی رجوع کا اختیار نہیں رہا) لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو۔"

(كتاب الطلاق، باب المطلقة الحامل إذا وضعت ذا بطنها بانت، ١ / ٦٢٤، ط: دار الفكر - بيروت)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل."

(كتاب الطلاق، ٣ / ٢٣٢، ط: دار الفكر)

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"٦٥٩٠: وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... ٦٥٩٥: ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات".

 (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق، ٤ / ٤٢٧ - ٤٢٩، ط: مكتبة زكريا بدیوبندالهند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها. كذا في الهداية. ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها. كذا في فتح القدير.  ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١ / ٤٧٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601101380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں