بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سیدوں کے خادموں پر زکات کاحکم


سوال

ہمارے گھر کے قریب کچھ لوگ رہتے ہیں وہ خود کو سید مخدومی کہتے ہیں۔(شاید ان کے اجداد سیدوں کے خادم تھے۔) وہ زکوٰۃ نہیں لیتے، محلے میں اگر کوئی خیرات کرے اور انہیں دے، تو وہ خود استعمال نہیں کرتے، بہت احتیاط کرتے ہیں۔۔۔ کیا واقعی ان پر زکوٰۃ، خیرات لینا جائز نہیں ہے ؟

جواب

شرعی وعرفی اعتبار سے بنو ہاشم کو"سید" کہاجاتاہےجن میں حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عباس، حضرت عقیل اور حضرت حارث  رضوان اللہ علیہم اجمعین   کی اولاد شمار ہوتی ہیں،باقی خود کو سیدمخدومی کہلانے کی کیا وجہ ہے؟یہ ان سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم سید کا خادم سید نہیں ہوتا،  وہ شرعا سید کے حکم میں نہیں ہوتا،لہذا ان کا زکات لینا شرعا جائز ہے،البتہ اگر وہ خود زکات نہ لینا چاہیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب.

(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعة وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعة انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب فإنه أعقب اثني عشر تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لاينبغي إذ لاتحرم عليهم كلهم بل على بعضهم ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضا إلى هاشم وتحل لهم الصدقة. اهـ."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج2، ص350، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604102561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں