میرے شوہر سید ہیں لیکن میرے والد سید نہیں ہیں، اس لیے میں سید نہیں ہوں،اب مجھے علاج کے لیے ٹیسٹ کروانے ہیں اور میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے میں صاحب نصاب بنوں،کیا میرے لیے زکات لینا جائز ہے؟
واضح رہے ایسا شخص جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال (یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو اور وہ سید بھی نہ ہو، تو ایسے شخص کے لیے ضرورت کے بقدر زکاۃ لینا جائزہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ اگر واقعۃًسونا،چاندی،نقدی اور ضرورت سے زائد نصابِ زکات کے بقدر مال و متاع(خواہ کسی بھی صورت میں ہو) کی مالک نہیں ہیں ،اور نہ ہی سائلہ خود سیدہیں تو اس صورت میں سائلہ کے لیے بقدر ضرورت زکات لینا جائز ہوگااور زکات دینے والوں کی زکات ادا ہوجائے گی۔
یہ فقط سوال کا جواب ہے، کسی کے لیے نہ سفارش ہے، اور نہ ہی تصدیق ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
"قوله هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:216، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144609101679
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن