آن لائن فاریکس ٹریڈینگ ،جس میں آپ کرنسی، دھات ،لوہا، چاندی، سونا وغیرہ کے شئیر (حصص) خریدتے ہیں اور بیچتے ہیں اس میں آپ ایک بروکر (وکیل) کے پاس جاتے ہیں، جس سے آپ اپنا اکاؤنٹ کھلواتے ہیں ،اور آپ کے پیسے اس اکاونٹ میں جمع ہو جاتے ہیں، اس میں اگر آپ 100ڈالر جمع کرواتے ہیں تو وہ کمپنی آپ کو ایک لاکھ ڈالر تک کی مالیت کے شیئرز خریدنے کا حق دیتی ہے، اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے آپ ایک لاکھ ڈالرز کے شئیرز (حصص) خرید سکتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ان کی مالیت کا اپنی جمع شدہ رقم کے مطابق کچھ حصہ خرید سکتے ہیں، لیکن بروکر (وکیل) آپ کو جو اپنی طرف سے رقم دیتا ہے اس میں نہ وہ آپ سے فیس لیتا ہے نہ ہی آپ کو منافع دیتا ہے ،اگر آپ منافع میں ہیں تو وہ بھی منافع میں ہے، اگر آپ نقصان میں ہیں تو وہ بھی نقصان میں ہے،بروکر کی طرف سے جو قیمت دی جاتی ہے وہ صرف شیئرز (حصص) خریدنے اور بیچنے کیلئے ہی ہوتی ہے، نہ آپ اس کو نکال سکتے ہیں نہ ہی اس سے کوئی فائدہ لے سکتے ہیں ،اس کے بعد آپ کو کمپیوٹر پر ایک سافٹ وئیر دے دیا جاتا ہے، جو مارکیٹ کے اتار چڑھاو کو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے، جب سے مارکیٹ وجود میں آئی آپ تب تک اس کا معائنہ کر سکتے ہیں کہ فلاں دن اس کا شیئرز (حصص) مہنگا ہوا یا سستا ہوا ،اس کے بعد جب ایک بندے کو یقین کامل ہوتا ہے کہ اب اس کا شئیر (حصص) یعنی سونا یا چاندی یا کرنسی مہنگی ہو گی وہ خرید لیتا ہے اور وہ مہنگی ہو جاتی ہے اور اس کو اس کا منافع مل جاتا ہے ، جب اس کو یقین ہوتا ہے کہ اب یہ چیز سستی ہونی ہے تو وہ سستی ہوتی ہے اور وہ اس سے منافع لے کر باہر آ جاتا ہے، اس میں کوئی تکے والی بات نہیں ہوتی اس میں آپ کو کمپیوٹر کے ساتھ کچھ اشارے بھی دیے جاتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مارکیٹ آج اوپر جائے گی یا نیچے، سو مرتبہ میں سے بیس مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ آپ غلط ہوں مگر اسی مرتبہ آپ ٹھیک ہی ثابت ہوتے ہیں ،اور یہ سارا کام آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے، اس میں مزید ایک کام اور بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ نے ایک حصص سو روپے کا خرید ہے اس میں آپ یہ بھی شامل کر سکتے ہیں کہ بروکر(وکیل) کو اگر یہ 90روپے کا ہو جائے تو وکیل خود بخود اس کو سیل کر دے مجھے زیادہ نقصان نہ ہو تو وکیل خود بخود اس کو سیل کر دیتا ہے اور اپنا کمیشن لے لیتا ہے اور آپ کو صرف دس روپے کا نقصان ہوتا ہے، اور اگر آپ اپنے وکیل کو نہیں بتاتے تو جب یہ 10کاہو جائے گا، وکیل آپ کو کہے گا کہ مزید پیسے دو تاکہ میں آپ کا سودا برقرار رکھ سکوں اگر میں مزید پیسے جمع نہیں کرواتا تو وکیل خودبخود اس کو بیچ دیتا ہے، رہی بات قبضہ کی جب آپ اپنے وکیل کے ذریعے کوئی حصص خریدتے ہیں تو وکیل آپ کو ایک کنفرمیشن ای میل کرتا ہے کہ آپ نے مجھ سے یہ حصص اتنے کا خریدا ہے اور وہ حصص آپ کی ملکیت میں آجاتےہیں، یعنی آپ کے اکاؤنٹ میں رقم کے بدلےحصص آ جاتے ہیں،اور یہ آپ کے اکاونٹ میں آپ کی ملکیت میں موجود ہوتا ہے جب تک آپ کا یہ شیئر(حصص) سارا نقصان میں نہ چلا جائے، اگر تو سارا نقصان میں چلا جائے تو وکیل اسے خودبخود بیچ دیتا ہے اور اگر منافع میں ہو تو یہ جب تک آپ اس کو بیچ نہیں دیتے یا وکیل کو نہیں کہتے بیچنے کا تب تک یہ نہیں بک سکتا،اگر تو یہ مکمل ناجائز ہے تو پھر پوری دنیا میں جو سونے ، چاندی کے ریٹ کا اتار چڑھاو ہوتا ہے وہ کہاں جائے گا، کیونکہ جب اس منڈی میں شیئرز (حصص) مہنگے ہوتے ہیں تو پوری دنیا میں جب آپ وہ چیز (سونا ، چاندی، لوہا، گندم، وغیرہ) خریدیں گے تو آپ کو اسی ریٹ پر ملے گی جو اس منڈی میں موجود ہے، اور اگر اس منڈی میں شیئرز (حصص) سستے ہوتے ہیں تو پوری دنیا میں آپ کو وہ چیز بھی سستی ملے گی، یہ ساری صورت حال ہے اس مارکیٹ کی۔اب اس کا اسلامی نظریہ کیا ہے، اس پر کیا فتوی لگے گا۔
فاریکس ٹریڈنگ کے نام سے بین الاقوامی سطح پرجوکاروبار رائج ہے،اس کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی، کپاس، گندم، گیس، خام تیل، جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
ہمارے علم کے مطابق "فاریکس ٹریڈنگ" کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں ،وہ شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں، وہ شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:
(1) کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے، یا نقد ہوتی ہے، مگر عقد کے دونوں فریق یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض (جانبین سے قبضہ) نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے شرعاً فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔
(2) اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد سے فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس" کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps (بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط ہوتی ہے۔
(4) اس میں "فیوچر سیل " بھی ہوتی ہے اور وہ ناجائز ہے؛ کیوں کہ بیع کا فوری ہوناضروری ہے،مستقبل کی تاریخ پر خرید و فروخت ناجائز ہے۔
(5) اس طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فی صد لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کے اتار چڑہاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔
اسی طرح آپ نے جو صورت ذکر کی ہے اس میں مندرجہ بالا خرابیوں کے ساتھ ساتھ مزید یہ خرابی بھی ہے کہ اس میں ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعہ ٹریڈنگ کی جاتی ہے ،جو کہ محض ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں؛ لہذا ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت کے نام سے مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، اس کرنسی میں حقیقت میں کوئی مبیع یعنی مادی چیز نہیں ہوتی اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاونٹ میں کچھ حساب کتا ب کے عدد آجاتے ہیں۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ بروکر کے پاس اکاونٹ میں جو ڈالر رکھاجاتا ہے ،جس پر بروکر اپنی طرف سے مزید رقم لگا کر ٹریڈ کرتا ہے ،جس کی حیثیت شرعاً قرض کی ہے ،اور اس کے عوض وہ ہر ٹریڈ پر منافع لیتا ہے،اور قرض پر منافع لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے ۔
کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف نہیں ہوتی اور اس وجہ سے اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن اس میں "بیع قبل القبض" (قبضہ سے پہلے فروخت کرنا)، "بیع مضاف الی المستقبل" (مستقبل کی بیع) اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جن کا اوپر بیان ہوا۔ نیز اس بیع میں بروکر کی جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے اگر اس میں نقصان ہو جائے تو بروکر کو اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب کہ شرعاً بروکر کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے بعد سودے میں کوئی حق اور اختیار نہیں ہوتا اور اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع و نقصان اس کے ذمہ ہے، نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ خرابیوں کی بنیاد پر فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ہے :
"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام أن يباع حتى يقبض. قال ابن عباس: ولا أحسب كل شيء إلا مثله."
(مشکاۃ المصابیح،کتاب البیوع،باب المنهی عنها من البیوع،ج:2،ص:863،المکتب الاسلامی)
وفيه أيضاّ:
"وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد» . "
(مشکاۃ المصابیح،کتاب البیوع،باب الربا،ج:2،ص:855،المکتب الاسلامی)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے :
"والمعنى أنه إذا بيع شيء منها ليس من جنسه، لكن يشاركه في العلة كبيع الحنطة بالشعير، فيجوز التفاضل فيه، وهذا معنى قوله: (فبيعوا كيف شئتم) : لكن بشرط وجود الشرطين الآخرين من الشروط المتقدمة لقوله: (" إذا كان ") ، أي: البيع (يدا بيد) ، أي: حالا مقبوضا في المجلس قبل افتراق أحدهما عن الآخر."
(کتاب البیوع،باب الربا،ج:5،ص:1917،دارالفکر)
مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر میں ہے :
"(ولو) كان البيع (بشرط لا يقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي البائع والمشتري (أو لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد) لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدا."
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج:2،ص:62،داراحیاء التراث العربی)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين والمجلس وتقابض بدل الصرف في إقالته."
(کتاب البیوع،الباب الثالث عشر فی الاقالۃ،ج:3،ص:157،دارالفکر)
وفيه أيضاّ:
"ومنها أن لا يكون مؤقتا فإن أقته لم يصح."
(کتاب البیوع،ج:3،ص:3،دارالفکر)
در مختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے :
"(وما لا تصح) إضافته (إلى المستقبل) عشرة (البيع، وإجازته، وفسخه، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال."
(کتاب البیوع،باب المتفرقات،ج:5،ص:256،سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.
وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."
(کتاب البیوع،ج:4،ص:501،سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه ،وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام.
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني."
(باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض،ج:5 ،ص: 166، ط: سعید)
تجارت کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے :
"بٹ کوائن" محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے."
(ج:2،ص:92،بیت العمار)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403102387
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن