بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سیونگ اکاؤنٹ بند کروانے کا طریقہ


سوال

آپ سے عرض ہے کہ میرے دو بینک اکاؤنٹ جو کہ  سود کی کھاتہ داری کی بنیاد پر کھولے گئے تھے، ان اکاؤنٹ پر بینک کی جانب سے سال میں دو مرتبہ سود دیا جاتا ہے، میرا ارادہ یہ ہے کہ میں ان سود کے پیسوں کو اداکردوں ، آپ سے راہ نمائی کی درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل صورتوں میں اپنی رائے سے نوازیں، آپ کی بہت مہر بانی ہوگی:

1: بینک کی طرف سے جتنا سود دیا جاچکا ہے، اس کا کچھ ریکارڈ میرے پاس موجود ہے، اگر میں سارا سود ادا کردوں اور پھر بینک اکاؤنٹ بند کرنے   کی درخواست بھی دی جائے تو اگر بینک کی جانب سے اکاؤنٹ فورًا بند نہ ہو اور بینک پھر اگلی مدت کا سود میرے اکاؤنٹ میں ڈال دے، تو پھر کیا صورت ہوگی؟مثلاً اب تک 100روپے سود ہے جوکہ میں نے فوراً ادا کردیا، بینک اکاؤنٹ بند نہ ہوا اور بینک نے مزید 50روپے سود ڈال دیا تو مجھے کتنی رقم کی ادائیگی کرنی ہوگی؟100روپے جو ادا کرچکا ہوں کیا وہ دوبارہ دینے ہوں گے؟

2: کچھ بینک ریکارڈ پرانی مدت کا ہے، وہ میرے پاس دستیاب نہیں ، بینک اگر وہ ریکارڈ مجھے دیر سے فراہم کرے یا نہ دے تو اس مدت کے سود کی رقم کاتعین کیسے ہوگا؟

3: یہ سود کا پیسہ کس کو ادا کیا جائے؟ کیا مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص کرنی ضروری ہے؟ اور کیا جس کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے وہ لینے والے کو بتادیں کہ رقم سود ہے؟

میری زندگی بڑی پریشانی میں ہے اور کوئی راستہ مجھے مل جائے تو دل کا سکون اور اطمینان نصیب ہو، آپ سے راہ نمائی کی درخواست ہے، براہِ کرم آپ ذرا توجہ فرمائیں، آپ کا بڑا احسان مند ہوں گا۔

جواب

1،2-  صورتِ مسئولہ میں سائل کا بینک میں سودی اکاؤنٹ کھلوانا اور اس کے ذریعہ سود حاصل کرنا ناجائز اور حرام تھا، تاہم اگر سائل اس معاملے کو ختم کرنا چاہتا ہے  تو اولاً اس پر توبہ واستغفار کرے اور اپنا سیونگ اکاؤنٹ بند کر واکر کرنٹ اکاؤنٹ کھلوالے اور اپنی تمام رقوم اس کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل کردے، اور  پھر  اب تمام معاملات کرنٹ اکاؤنٹ ہی کے ذریعہ سرانجام دیے جائیں، باقی جتنا سود سائل کے  اکاؤنٹ میں آچکا ہے اسے اس اکاؤنٹ سے نہ نکالے اور نہ استعمال میں لائے،جتنا سود لاعلمی میں لے چکا ہے تو  سود کی مد میں لی ہوئی رقم  فقراء پر صدقہ کرے، چناں چہ جس سود کی رقم کا ریکارڈ سائل کے پاس موجود ہے، اتنی رقم تو فورًا ہی صدقہ کردے، اور جس کا ریکارڈ موجود نہیں ہے وہ بینک سے وصول کرلے، اگر بینک ریکارڈ فراہم کرنے میں دیر کرے تو ریکارڈ کے آجانے تک انتظار  کرسکتاہے، ریکارڈ آجانے کے بعد اس کے مطابق رقم صدقہ کردے، اور اگر بینک ریکارڈ فراہم نہ کرے تو سائل  اندازہ اور تخمینہ کے ذریعہ حساب لگاکر اتنا مال  صدقہ کردے، نیز اگر بینک اکاؤنٹ بند کروانے کی کاوش کے دوران مزید سود بینک کی طرف سے حاصل ہوجائے تو اسے بینک اکاؤنٹ سے نہ نکالے ، مزید سود آنے کی وجہ سے سابقہ جو رقم سائل نکال چکا ہوگا اسے دوبارہ ادا نہیں کرے گا۔

3- بینک سے ملنے والا سود حرام ہے اور حرام مال کے متعلق اصل تو یہی ہے کہ اگر اس کا مالک معلوم ہو تو اس تک اس مال کو پہنچانا ضروری ہے،  لیکن بینک کے سود میں چوں کہ یہ صورت ممکن نہیں ہے، اس لیے بغیر ثواب کی نیت کے  فقراء کے درمیان اس مال کو  صدقہ کرنا واجب ہے، نیز اگر یہ سودی رقم کافر فقیر کو دی جائے تو بھی جائز ہے، لیکن مسلمان کو صدقہ کرنا اولی اور زیادہ بہتر ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ٢٧٨ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٖ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِۦ...الأية"(سورة أل عمران، الأية:279)

ترجمہ:’’اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا، پس اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے ہے اصل مال تمہارا نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر کوئی۔‘‘(بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".(صحيح مسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، ج: 2، ص:27، ط: النسخة الهندیة)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق".

(كتاب البيوع، أنواع الربا، ج:12، ص:172، ط: دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل:  أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه (5/ 99)..... قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ ‌لأن ‌سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:358، ط: سعيد)

المصنف لابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو الأحوص، عن إبراهيم بن مهاجر، قال: ‌سألت ‌إبراهيم، ‌عن ‌الصدقة على غير أهل الإسلام فقال: «أما الزكاة فلا وأما إن شاء رجل أن يتصدق فلا بأس».....عن إبراهيم، قال: «لا تعطهم من الزكاة وأعطهم من التطوع».....عن جابر بن زيد، قال: «لا تعط اليهودي والنصراني من الزكاة، ولا بأس أن تتصدق عليهم»."

(كتاب الزكوة، ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، ج:2، ص:402، رقم:10410، ط: دار التاج لبنان)

المجموع شرح المهذب للنووی میں ہے:

"يستحب ‌أن ‌يخص ‌بصدقته الصلحاء وأهل الخير وأهل المروءات والحاجات فلو تصدق على فاسق أو على كافر من يهودي أو نصراني أو مجوسي جاز وكان فيه أجر في الجملة قال صاحب البيان قال الصميرى وكذلك الحربي ودليل المسألة قول الله تعالى (ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما وأسيرا) ومعلوم أن الأسير حربي وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " قال رجل لأتصدقن الليلة بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يد سارق فأصبحوا يتحدثون تصدق على سارق فقال اللهم لك الحمد لأتصدقن بصدقة فخرج فوضعها في يد زانية فأصبح الناس يتحدثون تصدق على زانية فقال اللهم لك الحمد لأتصدقن الليلة بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يد غني فأصبحوا يتحدثون تصدق على غني فقال اللهم لك الحمد على سارق وعلى زانية وعلى غني فأتي فقيل له أما صدقتك على سارق فلعله ان يستعف عن سرقته واما الزانية فلعلها تستعف عن زناها وأما الغني فلعله يعتبر وينفق مما آتاه الله تعالى " رواه البخاري ومسلم."

(كتاب الزكوة، باب قسم الصدقات، ج:6، ص:240، ط: إدارة الطباعة المنيره القاهرة)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"بنک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیرمسلم کو دینا جائز ہے؟

الجواب:دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب۔"

( کتاب الزکاة، بعنوان: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوۃ اور سود کی رقم دینا، ۷ / ۱۸۱)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144602101575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں