ایک مسئلہ میں رہنمائی درکار ہے کہ میں دبئی میں کاروبار کرتا ہوں ۔یہاں ایک آن لائن کمپنی ہے جس کا نام ٹےبی (tabby) ہے۔ اس کمپنی کا بنیادی کام یہ ہے کہ یہ خریدار کی طرف سے دکاندار کو مال کی نقد ادائیگی کر دیتی ہے اور اس کے بعد گاہک سے اس مال کی قیمت کو قسطوں (installment ) میں وصول کرتی ہے۔ اس سے گاہک کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو قسطوں میں فوری طور پر مال وصول ہوجاتا ہے جب کہ دکاندار کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنے مال کی قیمت نقد یا ایک ہفتہ میں موصول ہوجاتی ہے۔
لیکن مذکورہ کمپنی سے فائدہ اٹھانے میں طرفین سے متعلق کمپنی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ دکاندار کو طے شدہ کل قیمت کا %7 سروس چارجز کے طور پر کاٹ کر رقم کی ادائیگی ایک ہفتہ کے اندر کرتی ہے جب کہ گاہک سے طے شدہ قیمت پر کوئی اضافہ وصول نہیں کرتی بشرطیکہ وہ قسط کی ادائیگی بر وقت کرے بصورت دیگر وہ تاخیر سے قسط کی ادائیگی پر جرمانہ لاگو کرتی ہے۔
مثلا : ایک چیز 2000 کی ہے تو خریدار tabby نامی کمپنی کو چار ماہ کی قسطوں میں 500 ہر مہینے ادا کرے گا۔بروقت قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ لگے گا۔
اور tabby کمپنی دکاندار کو معاملہ مکمل ہو جانے کے ایک ہفتے کے اندر 2000 کا 7 فیصد یعنی 160 سروس چارجز کاٹ کر بقیہ رقم 1840 ادا کر دیتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی سے فائدہ اٹھانا گاہک اور دکاندار دونوں کے لیے شرعًا کیسا ہے ؟ اگر گاہک کے لیے درست نہیں تو کیا کوئی گاہک دکاندار کو مذکورہ کمپنی کے ذریعہ معاملہ کرے تو دکاندار کو کیا کرنا چاہیے ؟
سائل کی بیان کردہ معلومات اور کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق خریدار جب مخصوص آن لائن اسٹورز یا براہِ راست مخصوص دوکان پر جا کر سامان خریدتا ہے اور رقم کی ادائیگی کے وقت ٹیبی کے ذریعہ ادائیگی کا آپشن استعمال کرتا ہے تو خریدار کو یہ سہولت مل جاتی ہے کہ رقم یک مشت کے بجائے 4 قسطوں میں ادا کرنی ہوتی ہےاور دوکان والے کو ٹیبی کی طرف سے نقد یا ایک ہفتہ کے اندر اندر رقم مل جاتی ہے اور اب رقم کی وصولی کی مکمل ذمہ داری کمپنی کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اور خریدار رقم ادا کرے یا نہ کرے، بہر صورت کمپنی دوکان دار کی طرف رجوع نہیں کرے گی اور نفع نقصان کمپنی کا ہوگا۔نیز ٹیبی کمپنی اس سہولت کے عوض کچھ فیس دوکان دار سے کاٹ لیتی ہے۔اسی طرح خریدار اگر ادائیگی میں دیر کرتا ہے تو ٹیبی کمپنی اس سے جرمانہ وصول کرتی ہے۔
مندرجہ بالا معلومات کے مطابق مذکورہ کمپنی سے دوکان دار کے لیے معاملہ کرنا شرعًا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ مذکورہ معاملے میں کمپنی اس دین (قرض) کی خریداری کر رہی ہے جو خریدار پر دوکان دارکی طرف سے سامان کے عوض واجب ہوا ہے اور کمپنی دوکان دار سے یہ دین (قرض) کم پیسوں (یعنی سروس چارجز منہا کر کے)میں خرید لیتی ہے ، چوں کہ دوسرے کے دین (قرض ) کی خریداری شرعًا جائز نہیں ہے اور چارجز کے طور پر ایک مخصوص رقم کاٹنا سود ہے،لہذا یہ معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
اسی طرح مذکورہ کمپنی سے خریدار کے لیے بھی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اول تو خریدار کا معاملہ دوکاندار اور کمپنی کے درمیان نا جائز معاملہ کا نتیجہ ہے اور دوسرا یہ کہ کمپنی کی طرف سے تاخیر سے ادائیگی پر جرمانہ لینا سود ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: ولا يجوز من غيره) أي لا يجوز تمليك الدين من غير من عليه الدين، إلا إذا سلطه عليه، واستثنى في الأشباه من ذلك ثلاث صور.
الأولى: إذا سلطه على قبضه، فيكون وكيلا قابضا للمولى ثم لنفسه الثانية: الحوالة.
الثالثة: الوصية. (قوله: كمكيل) فإنه إذا اشترى العبد بهذا الكر من البر تعين ذلك الكر، فلا يجوز له دفع كر غيره. مطلب فيما تتعين فيه النقود وما لا تتعين."
(کتاب البیوع،باب المرابحہ، ج نمبر ، ص نمبر ۱۱۵۲، ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة.... (خال عن عوض).....(بمعيار شرعي)....مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر فلو شرط لغيرهما فليس بربا بل بيعا فاسدا (في المعاوضة)
قوله أي بائع أو مشتر) أي مثلا فمثلهما المقرضان والراهنان قهستاني قال: ويدخل فيه ما إذا شرط الانتفاع بالرهن كالاستخدام والركوب والزراعة واللبس وشرب اللبن وأكل الثمر فإن الكل ربا حرام كما في الجواهر والنتف اهـ ط."
(کتاب البیوع، باب الربا، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۶۸، ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101384
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن