ایک شخص تبلیغ کے لیے اللہ کے راستے میں نکلا ہو ،درمیان میں اُس شخص کی موت آجائے، تو کیا اس شخص کی موت مکہ اور مدینہ میں انتقال ہونے والے شخص سے افضل ہے،کیا یہ صحیح ہے؟
واضح رہے کہ تبلیغ دین کے راستے میں وفات پانے والے شخص کی اگر چہ فضیلت ہے،لیکن مکہ اور مدینہ میں انتقال ہونے والے شخص سے افضل نہیں ہے، بلکہ احادیث مبارکہ سے مکہ اور مدینہ میں وفات پانے والے شخص کی فضیلت اس سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن يحيى بن سعيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان جالسا وقبر يحفر بالمدينة فاطلع رجل في القبر فقال: بئس مضجع المؤمن فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بئس ما قلت» قال الرجل إني لم أرد هذا إنما أردت القتل في سبيل الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا مثل القتل في سبيل الله ما على الأرض بقعة أحب إلي أن يكون قبري بها منها» ثلاث مرات."
(باب حرم المدينة...،الفصل الثالث، ج: 2، ص: 840، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ:حضرت یحی بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن) مدینہ میں ایک قبر کھودی جارہی تھی اور رسول کریم ﷺ بھی وہاں تشریف فرماتھے،ایک شخص نے قبر میں جھانکا اور کہنے لگاکہ (یہ) قبر مومن کے لیے بری خواب گاہ ہے،رسول کریم ﷺنے (یہ سن کر) فرمایاکہ بری تو وہ چیز ہے،جو تم نے کہی ہے،اس شخص نے عرض کیا کہ ”میرا منشاء یہ نہیں تھا،بلکہ اس بات سے میرامطلب اللہ کی راہ میں شہید ہونے(کی فضیلت) ظاہر کرنا تھا“آپ ﷺ نے فرمایا”(ہاں یہ بات تو صحیح ہے کہ) اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے،لیکن(یہ بات بھی ہے کہ)روئے زمین کا کوئی بھی ٹکڑا ایسانہیں ہے ،جس میں میری قبر بنے اور وہ مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو۔“آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔
تشریح: ”بری تو وہ چیز ہےجو تم نے کہی ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ بات بری اور غلط ہے کہ قبر مومن کے لیے بری خوابگاہ ہے،کیونکہ تم نے مؤمن کی قبر کو براکہاہے،حالانکہ مؤمن کی قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔چنانچہ اس شخص نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ میرامنشاء قبر کو مطلقاًمؤمن کی بری خوابگاہ کہنا نہیں تھا،بلکہ میرا مطلوب تو یہ تھا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونا گھر میں مرنے سے بہتر ہے،آنحضرت ﷺ نے اس کے اس نکتہ کو پسند فرمایا اور تصدیق کی کہ واقعی اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں ہے،پھر آپ ﷺ نے اپنی قبر کے لیے مدینہ کی زمین کو پسند فرماکر اس شخص کی فضیلت کو ظاہر کیا جو مدینہ میں مرے اور مدینہ ہی میں دفن کیاجائے،خواہ وہ شہید ہو یاغیر شہید۔(مظاہر حق جدید،ج: 2،ص: 761)
لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح ميں هے:
"(لا مثل القتل) لا بمعنى ليس واسمه محذوف، أي: ليس الموت بالمدينة مثل القتل في سبيل اللَّه بل هو أفضل.
وقوله: (ما على الأرض بقعة. . . إلخ)، دليل على الأفضلية، هكذا ذكر الطيبي (1)، فعلم منه أن الموت بالمدينة والدفن فيها أفضل من الشهادة والدفن في مكان الغربة، قد يختلج أن الظاهر على هذا التقدير أن يقال: ليس القتل في سبيل اللَّه مثل الموت بالمدينة، ويحتمل عبارة الحديث أن يكون معناه: نعم ليس الموت بالمدينة مثل القتل في سبيل اللَّه، والقتل في سبيل اللَّه أفضل وأعظم، ولكن إن لم يرزق الشهادة فالموت في المدينة والقبر فيها أفضل من الموت في سائر البلاد والقبرِ فِيها، فعلى هذا يفهم أفضلية الموت بالمدينة من الموت في سائر البلاد، لكن يبقى أفضلية القتل في سبيل اللَّه، هذا احتمال لفظي، واللَّه أعلم بالمراد، ولا شك أن المعنى الأول أبلغ وأدخل في فضيلة المدينة."
(باب حرم المدينة...، الفصل الثالث، ج:5، ص: 483، ط: دار النوادر)
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"وعن رجل من آل الخطاب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : "من زارني متعمداً كان في جواري يوم القيامة ومن سكن المدينة وصبر على بلائها كنت له شهيداً وشفيعاً يوم القيامة ومن مات في أحد الحرمين بعثه الله من الآمنين يوم القيامة ."
( باب حرم المدینۃ حرسھا اللہ تعالی ،ج: 2، ص: 840، ط:المكتب الإسلامي)
ترجمہ:
"اور خطاب کے خاندان کا ایک شخص ناقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا وہ قیامت کے دن میرا ہم سایہ اور میری پناہ میں ہو گا، جس شخص نے مدینہ میں سکونت اختیار کر کے اس کی سختیوں پر صبر کیا قیامت کے دن میں اس کی اطاعت کا گواہ بنوں گا اور اس کے گناہوں کی بخشش کے لیے شفاعت کروں گا اور جو شخص حرمین (مکہ اور مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا (یعنی یہ قیامت کے دن عذاب کے خوف سے مامون رہے گا)۔
ترمذی شریف میں ہے:
"عن نافع عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت بها؛ فإني أشفع لمن يموت بها."
(باب ماجاءفی فضل المدینة، ج: 6، ص: 202، ط: دار الغرب الإسلامی)
ترجمہ:
"حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس سے ہو سکے کہ مدینہ منورہ میں مرے تو وہیں مرنے کی کوشش کرے؛ کیوں کہ جو یہاں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا"۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن زيد بن أسلم ، عن أبيه ، عن عمر رضي الله عنه قال: «اللهم ارزقني شهادة في سبيلك، واجعل موتي في بلد رسولك صلى الله عليه وسلم."
(کتاب فضائل المدینة، ج: 3، ص: 23، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ: "زید بن اسلم اپنے والد سے وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے دعا کی: یا اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما، اور مجھے اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت دے"۔
مسلم شریف میں ہے :
"عن عائشة أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما كان ليلتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج من آخر الليل إلى البقيع فيقول: « السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وأتاكم ما توعدون غداً مؤجلون، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد »."
(باب عند دخول القبور والدعاء لاھلھا، ج: 2، ص: 669، ط:دار إحياء التراث)
ترجمہ:
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے: تمہارے اوپر سلام ہو اے مؤمنوں کے گھر والو! تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما"۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102278
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن