نماز پڑھنے والے کے پاس اونچی آواز میں قرآن پاک پڑھنے کا بھی حکم نہیں ہے اور تبلیغ والے اعلان بھی کرتے ہیں اور تعلیم بھی کرواتے ہیں، جب کے پاس کچھ احباب نماز میں مشغول ہوتے ہیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟
مختصر اعلان میں زیادہ دیر نہیں لگتی اس لیے مختصر اعلان نماز کے بعد کیا جاسکتا ہے اور جن نمازوں کے بعد سنتِ مؤکدہ ہوتی ہے (مثلا ظہر، مغرب اور عشاء) ان نمازوں کے بعد تعلیم اتنے وقفے سے شروع کی جائے کہ لوگ سنن و نوافل سے فارغ ہوجائیں تاکہ تعلیم کی آواز سے سنتِ مؤکدہ پڑھنے والے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو، نیز تعلیم کی کتاب بھی اتنی آواز سے پڑھنی چاہیے کہ آواز صرف تعلیم کے حلقے میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک پہنچے اور تعلیم کے حلقے سے ہٹ کر انفرادی نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو، نیز نمازیوں کو بھی چاہیے کہ اس بات کی رعایت رکھیں کہ سنتِ مؤکدہ پڑھنے کے بعد اگر مزید نوافل پڑھنے ہوں تو باقی نوافل تعلیم کی جگہ سے ہٹ کر ایک جانب ہوکر پڑھ لیا کریں۔ عام طور پر تبلیغی حضرات اعلان اور تعلیم وغیرہ کرتے ہوئے نمازیوں کی رعایت رکھتے ہیں، البتہ بعض اوقات جن لوگوں سے کوتاہی ہوجاتی ہے ان کو بھی نرمی اور محبت سے یہ حکم سمجھا دینا چاہیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ خیر کے کاموں میں حتیٰ الامکان تطبیق دے کر آپس میں جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، خیر کے کسی ایک کام کی وجہ سے خیر کے دوسرے کام میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے۔
مرقاة المفاتيح میں ہے :
"(وعن عبد الله بن عمرو أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مر بمجلسين) : أي: بأهلهما، وقول ابن حجر أي حلقتين غير مفهوم من الحديث (في مسجده) - صلى الله عليه وسلم - (فقال: (كلاهما) : أي: كلا المجلسين يعني أهلهما، أو المراد به المبالغة أو الدلالة بطريق البرهان، فإن شرف المكان بالمكين (على خير) : أي جالسين أو ثابتين على عمل خير (وأحدهما أفضل من صاحبه) : أي: أكثر ثوابا (أما هؤلاء) : قال الطيبي: تقسم للمجلسين إما باعتبار القوم أو الجماعة بعد التفريق بينهما باعتبار النظر إلى المجلسين في إفراد الضمير (فيدعون الله) : أي: يعبدونه ويسألونه بلسان المقال أو الحال (ويرغبون إليه) : أي: يرغبون فيما عند الله متوسلين إليه ومتوجهين ومنتظرين لديه (فإن شاء أعطاهم) : أي: فضلا، والمفعول الثاني محذوف أي ما عنده من الثواب. (وإن شاء منعهم) : أي: إياه عدلا، وفي تقديم الإعطاء على المنع إيماء إلى سبق رحمته غضبه، وفي الحديث رد على المعتزلة حيث أوجبوا الثواب فاستحقوا العقاب. قال الطيبي: وفي تقييد القسم الأول بالثالثة وإطلاق القسم الثاني يعني الآتي إشارة إلى بون بعيد بينهما (أما هؤلاء) : أي: وأمثالهم (فيتعلمون الفقه) : أي أولا (أو العلم) : شك من الراوي (ويعلمون الجاهل) : أي: ثانيا (فهم أفضل) : لكونهم جامعين بين العبادتين وهما الكمال والتكميل، فيستحقون الفضل على جهة التبجيل (وإنما بعثت معلما) : أي بتعليم الله لا بالتعلم من الخلق، ولذا اكتفى به (ثم جلس فيهم) : إشعار بأنهم منه وهو منهم، ومن جلس فيهم، كذا قاله الطيبي، أو جلس فيهم لاحتياجهم إلى التعليم منه عليه الصلاة والسلام، كما أشار إليه بقوله: بعثت معلما والله أعلم. (رواه الدارمي) ."
(كتاب العلم، ج1، ص327، 328، دار الفكر)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
"ويكون الإحتساب مكروها إذا أدى إلى الوقوع في المكروه."
(حسبة، ج:17، ص: 230، ط: دار السلاسل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609102085
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن