پٹرول پمپ کی مسجد ہے وہ پمپ جی ٹی روڈ پر ہے، اس مسجد میں امام بھی مقرر ہے اور وہاں جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے، اب وہاں پر یہ ہوتا ہے کہ تبلیغی جماعت والے جماعت کی نماز سے کبھی پہلے آتے ہیں کبھی بعد میں۔ اگر پہلے آتے ہیں تو مسجد میں جماعت کی نماز کا کچھ وقت باقی ہوتا ہے وہ اپنی جماعت پڑھ کر جاتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ مسجد کی جماعت کے بعد آتے ہیں وہ دوسری جماعت پڑھ کے جاتے ہیں۔ آیا ان کو دونوں صورتوں منع کرنا چاہیے یا نہیں؟ واضح رہے کہ مسجد میں صرف برآمدہ ہے۔
فقہاء نے جہاں مسجد میں تکرارِ جماعت کو مکروہ لکھا ہے وہاں بعض صورتوں کو مستثنیٰ کیا ہے اور ان مستثنیٰ صورتوں میں سے یہ دو صورتیں جدا جدا ہیں:
1- ایسی مسجد جو راستے پر واقع ہو۔
2- ایسی مسجد جس کا امام و مؤذن مقرر نہ ہو۔
لہذا ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم سمجھنا فہم کی غلطی ہے۔
نیز مسجد میں تکرارِ جماعت کے مکروہ ہونے کی من جملہ وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تکرارِ جماعت سے تقلیلِ جماعت لازم آئے گی، یعنی لوگ دوسری جماعت سے نماز پڑھنے کے بھروسہ پر پہلی جماعت میں شریک نہیں ہوں گے اور یہ علت مسجدِ طریق میں نہیں پائی جاتی؛ کیوں کہ وہاں لوگ آتے اور جاتے ہیں تو ایسی مسجد میں بعد میں آنے والی جماعت کے بھروسہ پر نماز میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ امام و مؤذن کا تقرر مسجد شرعی کی تعریف میں داخل نہیں ہے۔
لہذا اگر کسی راستے کی مسجد میں (جہاں آباد محلہ اور مقامی رہائشی نمازی نہ ہوں) امام و مؤذن مقرر کر دیا جائے جو نمازوں کے اوقات میں موجود لوگوں کو نماز پڑھائے، اس وجہ سے بعد میں آنے والوں کے لیے اس مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا مکروہ نہیں ہو گا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر اس مسجد کے قریب کوئی محلہ وغیرہ نہیں ہے تو اس مسجد میں یکے بعد دیگرے ایک سے زائد جماعت کروانا مکروہ نہ ہوگا، لیکن چوں کہ اس مسجد میں جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے جو اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں محلہ و آبادی موجود ہے، اگر واقعی یہی صورت ہے تو اس مسجد میں جماعتِ ثانیہ مکروہ ہوگی اور کوئی بھی یہاں دوسری جماعت کروائے تو ان کو جماعت کرانے سے منع کرنا بغیر کسی مزاحمت کے درست ہوگا۔ اور اگر محلہ نہ ہونے کے باوجود یہاں جمعہ کی نماز قائم کی جاتی ہے تو جماعتِ ثانیہ مکروہ نہیں ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552):
"(قوله: ويكره) أي تحريمًا؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي. (قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولًا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعًا، كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجًا فوجًا؛ فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة، كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر، والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احترازًا عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعًا. اهـ.
وأما مسجد الشارع فالناس فيه سواء لا اختصاص له بفريق دون فريق اهـ".
المبسوط للسرخسي (1/ 135):
"(ولنا) أنا أمرنا بتكثير الجماعة، وفي تكرار الجماعة في مسجد واحد تقليلها؛ لأن الناس إذا عرفوا أنهم تفوتهم الجماعة يعجلون للحضور؛ فتكثر الجماعة، وإذا علموا أنه لاتفوتهم يؤخرون؛ فيؤدي إلى تقليل الجماعات، وبهذا فارق المسجد الذي على قارعة الطريق؛ لأنه ليس له قوم معلومون فكل من حضر يصلي فيه، فإعادة الجماعة فيه مرةً بعد مرة لاتؤدي إلى تقليل الجماعات".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200917
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن