بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

تبرعات کی واپسی لازمی نہیں ہے


سوال

 میں ایک مسئلے میں پریشان ہوں برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائی جائے، میرے حالات کافی خراب تھے اس دوران میرے بڑے بھائی مجھے 200 روپے روز دیتے تھے، گھر کے خرچے کے لیے ان کا میں کوئی کام بھی نہیں کرتا تھا، کیونکہ وہ سونے کا کام کرتے تھے اور وہ مجھے ٹھیک نہیں لگتا تھا ،یہ رقم انہوں نے مجھے 325 دن دی ہے، نہ تو میرے بھائی نے کہا کہ یہ رقم تمہیں ادھار دے رہا ہوں اور نہ یہ  کہا کہ یہ قرض ہے، اب مجھے کتاب و سنت کی روشنی بتایا جائے کہ میں کیا ان کو واپس دینے کا پابند ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے بھائی نے جب  یہ رقم نہ بطورِ ادھا رکےدی ہے اور نہ بطور قرض دی ہے ،تو یہ رقم بھائی کی طرف سے سائل پر تبرع  اور احسان ہے اور تبرع کی ہوئی اشیاء کو  واپسی کرنا لازمی نہیں ہوتا،لہذا سائل اس رقم کو واپس کر نے کا پا بند نہیں ہے۔

" الموسوعۃ الفقہیۃ الكویتیہ" میں ہے:

"التبرع لغة: مأخوذ من برع الرجل وبرع بالضم أيضا براعة، أي: فاق أصحابه في العلم وغيره فهو بارع، وفعلت كذا متبرعا أي: متطوعا، وتبرع بالأمر: فعله غير طالب عوضا. 

وأما في الاصطلاح، فلم يضع الفقهاء تعريفا للتبرع، وإنما عرفوا أنواعه كالوصية والوقف والهبة وغيرها، وكل تعريف لنوع من هذه الأنواع يحدد ماهيته فقط، ومع هذا فإن معنى التبرع عند الفقهاء كما يؤخذ من تعريفهم لهذه الأنواع، لا يخرج عن كون التبرع بذل المكلف مالا أو منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالبا."

(حرف التاء ، تبرع ، ج : 10 ، ص :  65 ، ط : دارالسلاسل)

"تقویم الأدلۃ فی  أصول الفقہ" میں ہے:

"ومن ذلك قولهم: إن الأثمان أموال تتعين في ‌التبرعات، فكذلك في المعاوضات قياسا على الحنطة وسائر السلع، وهذا فاسد وضعا لأن ‌التبرعات ما شرعت لإيجاب الأموال في الذمم بل للإيثار بعين ماله۔"

(القول في بيان فساد الوضع ، ص : 362 ، ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں