بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تہجد کی نماز دو دو رکعات یا چار چار رکعات کر کے پڑھنا


سوال

تہجد کی نماز دو دو رکعات پڑھی جائیں یا چار چار رکعات پڑھی  جائیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ تہجد کی نماز دودو رکعات کر کے پڑھیں یا چار چار رکعات کر کے پڑھیں دونوں طرح  جائز ہے، البتہ افضل اور بہتر  یہ ہے کہ دو دو رکعات الگ الگ پڑھی جائیں ، کیوں کہ  اکثر وبیشتر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ تہجد آٹھ رکعات (دو دو رکعت پر سلام کے ساتھ)  منقول ہیں۔

اور اگر چار رکعت ایک سلام سے پڑھیں تو بہتر یہ ہے کہ  دو رکعات کے بعد قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف بھی پڑھے، اور تیسری رکعت کے شروع میں ثناء بھی پڑھے، کیوں کہ نوافل کی ہر دو رکعت مستقل نماز ہوتی ہے؛تاہم اگر قعدے میں التحیات کے بعد درود نہیں پڑھے یا اگلی رکعت کے شروع میں ثنا نہیں پڑھی تو بھی نماز ادا ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالا: في الليل المثنى أفضل، قيل وبه يفتى.

وفي الرد: (قوله قيل وبه يفتى) عزاه في المعراج إلى العيون. قال في النهر: ورده الشيخ قاسم بما استدل به المشايخ للإمام من حديث الصحيحين عن عائشة - رضي الله عنها - «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا لا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثا» وكانت التراويح ثنتين تخفيفا، وحديث «صلاة الليل مثنى مثنى» يحتمل أن يراد به شفع لا وتر، وترجحت الأربع بزيادة منفصلة لما أنها أكثر مشقة على النفس، وقد قال - صلى الله عليه وسلم - «إنما أجرك على قدر نصبك» اهـ بزيادة، وتمام الكلام على ذلك في شرح المنية وغيره."

(كتاب الصلوة، ‌‌باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:16، ط:سعيد)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144609101267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں