بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے صریح الفاظ دو بار کہنے سے دو طلاقوں کا وقوع


سوال

میرے شوہر نے مجھے فون پر غصے کی حالت میں 15 مئی 2024 کو یہ کہہ کر لائن کاٹ دی کہ ”میں تمھیں طلاق دیتا ہوں، تمھیں دوسری چاہیے تو میں تمھیں دوسری طلاق بھی دیتا ہوں“ اس کے بعد مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھا، اور میں اپنی ماں کے گھر رہ رہی ہوں، اس دوران مجھے تین دفعہ ماہ واریاں بھی آچکی ہیں، اب دریافت یہ کرنا ہے کہ ہمارا  نکاح ختم ہوچکا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً درست ہے کہ شوہر نے فون پر سائلہ کو مذکورہ خط کشیدہ الفاظ کےذریعے 15 مئی 2024ء کو دو طلاقیں دی ہیں تو اس سے سائلہ پر دو طلاق رجعی واقع ہو گئی تھیں، اور شوہر کو عدت (پوری تین ماہ واریوں) کے اندر رجوع کا حق حاصل تھا، تاہم جب شوہر نے عدت (پوری تین ماہ واریوں) کے اندر زبانی یا عملی کسی بھی اعتبار سے رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہو چکا ہے، اب رجوع جائز نہیں، سائلہ شرعاً دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے، البتہ اگرفریقین باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں، تجدیدِ نکاح کے بعد شوہر نے آئندہ اگر کبھی تیسری طلاق بھی دے دی توسائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

لہٰذا آئندہ کے لیے خوب احتیاط کی ضرورت ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو قال لها أنت طالق طالق أو أنت طالق أنت طالق أو قال قد طلقتك قد طلقتك أو قال أنت طالق وقد طلقتك تقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولا بها."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الأول في الطلاق الصريح، 1/ 390، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"الدر المختار"  میں ہے:

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)  بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ....(واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا) ولو نوى به الطلاق."

)کتاب الطلاق، باب الصریح، 3/ 247، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....بعد الدخول حقيقة، أو حكما)....ثلاث حيض كوامل)....(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر)....أو بلغت بالسن)....ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر ....(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدۃ، 3/ 504، ط:سعید)

"فتح القدير" میں ہے:

"فالأحسن أن يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها)

(ويتركها حتى تنقضي عدتها) لما أسند ابن أبي شيبة عن إبراهيم النخعي أن الصحابة رضي الله عنهم كانوا يستحبون أن يطلقها واحدة ثم يتركها حتى تحيض ثلاث حيض. وقال محمد: بلغنا عن إبراهيم النخعي (أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يستحبون أن لا يزيدوا في الطلاق على واحدة حتى تنقضي العدة فإن هذا أفضل عندهم من أن يطلق الرجل امرأته ثلاثا عند كل طهر واحدة؛ ولأنه أبعد عن الندامة) حيث أبقى لنفسه مكنة للتدارك حيث يمكنه التزوج بها في العدة أو بعدها دون تخلل زوج آخر."

(کتاب الطلاق، باب طلاق السنة، 3/ 447، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601102437

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں