بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق نامہ سن کر اس پر دستخط کرنے سے طلاق کا حکم اور حقِ حضانت کا مسئلہ


سوال

میرے بیٹے اور اس کی بیوی کے درمیان باہمی رضامندی سے تحریراً طلاق کا معاملہ ہوا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی بنا پر میرے بیٹے نے تین طلاق پر مشتمل طلاق نامہ پڑھے بغیرہی محض لڑکی کے چچا سے طلاق نامہ سن کر اس پر دستخط کردیے، کیا اس سے شرعًا طلاق ہوئی یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو دوبارہ ساتھ رہنے یا نکاح کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟

نیز میرے اس بیٹے کے دو بچے ہیں، بڑے بچے کی عمر ڈھائی سال، جب کہ چھوٹا بچہ تقریبًا گیارہ ماہ کا ہے، میرے بیٹے کی بیوی نے اپنی خوشی اور رضامندی سے ان بچوں کو باپ کے پاس چھوڑنے اور حقِ پرورش سے دستبرداری اختیار کی ہے، اور طلاق نامہ کی اس شق پر اپنی رضامندی سے دستخط بھی کی ہے کہ ’’بچے مستقل باپ کے پاس رہیں گے، اور ماں بچوں سے ملاقات کرنے یا پھر مستقبل میں بچوں کی کسٹڈی کےلیے کسی بھی فورم، کورٹ آف لاء سے رجوع نہیں کرےگی، کیوں کہ اس نے اپنی مرضی سے بچوں کی مستقل کسٹڈی باپ کے حوالے کی ہے‘‘۔ کیا اس دستبرداری کے بعد ماں کو عدالت یا کسی بھی ذریعے سے  بچوں کو اپنے پاس رکھنے کے مطالبہ کا حق ہے یا نہیں؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ جس طرح زبانی طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، اسی طرح تحریری طور پر طلاق دینے یا طلاق نامہ پڑھے بغیر ہی اپنی رضامندی سے اس پر دستخط کردینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیٹے نے جب تین طلاق پر مشتمل طلاق نامہ پر اپنی رضامندی سے دستخط کردیے تو اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اور ان کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، اگرچہ شوہر نے طلاق نامہ نہ پڑھا ہو،  تین طلاق کے بعد شرعًا ساتھ رہنے ، رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کی کوئی گنجائش نہیں۔ 

2۔ نیز ملحوظ ہو کہ بچے کی پرورش اور حضانت کا حق اصلاً ماں کو حاصل ہے، کیوں کہ بچے اپنے روزمرہ کی ضروریات کھانے،  پینے اور استنجا وغیرہ میں مدد اور تعاون کے محتاج ہوتے ہیں، یہ امور والدہ یا دوسری کوئی عورت بخوبی بجا لاسکتی ہے، مرد کے لیے یہ امور سر انجام دینا آسان نہیں، اس لیے شرعًا لڑکے کو سات سال تک اور لڑکی کو نو  سال کی عمر تک پرورش کی خاطر ماں یا دوسری قریبی رشتہ دار خاتون کے پاس رکھا جاتا ہے۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگرچہ ماں نے اپنے ان بچوں سے ملاقات كرنے اور ان کے مستقبل کے حوالے سے پرورش اور ضمانت سے دستبردار ہونے پر دستخط کیے ہیں، تاہم اگر ماں حقِ پرورش کا مطالبہ کرے تو از روئے شرع و قانون ماں کو مطالبہ کا حق حاصل ہے، چنانچہ اگر ماں ان بچوں کی پرورش کی اہل ہو اور اس کی زیرِ پرورش بچوں کے حال و مستقبل کے حوالے سے کوئی مفسدہ نہ ہو تو  اس کے مطالبہ پر بچوں کو اس کے حوالہ کیا جائے گا، اور دونوں بچے سات سال کی عمر تک ماں کے زیرِ پرورش رہیں گے، اور اس دوران بچوں کا نان و نفقہ (یعنی کھانے پینے، کپڑے  اور دیگر ضروریات کا خرچہ) باپ کے ذمّہ ہوگا، اور باپ جب چاہےاپنے بچوں سے ملاقات کرسکتا ہے، پھر ہر ایک بچے کے سات سال مکمل ہونے کے بعد انہیں باپ کے حوالہ کیا جائے گا، اور اس کے بعد کے تمام مرحلہ وار ذمّہ داریاں (مثلاً تعلیم و تربیت، شادی وغیرہ) باپ کے ذمّہ ہوگا، اور اگر بچوں کی ماں اپنے بچوں کی پرورش سے انکار کردے تو یہ حق بچوں کی نانی، دادی، خالہ اور پھوپھی کو بالترتیب حاصل ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا."

(کتاب الطلاق،مطلب فی الطلاق بالکتابة،ج:3،ص:246،ط:ایج ایم سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}[البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:ايج ايم سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

 (كتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط:رشيدية كوئته)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر". 

(كتاب الحضانة، فصل في بيان من له الحضانة، ج:4، ص:41، ط:ایج ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين. وقال القدوري: حتى يأكل وحدَه، ويشرب وحدَه، ويستنجي وحدَه. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح، هكذا في التبيين".

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:542، ط:رشيدية كوئته)

وفيه أيضاً:

"وإذا أخذ المطلق ولده من حاضنته لزواجهاله أن يسافر به إلى أن يعود حق أمه هكذافي البحر الرائق ناقلاعن الفتاوى السراجية". (ج:1، ص:542)

وفيه أيضاً:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي......وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير.......

فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم، فإن ماتت أوتزوجت فبنت الأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فبنت الأخت لأم لا تختلف الرواية في ترتيب هذه الجملة إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى وبنات الأخوات لأب وأم أو لأم أولى من الخالات في قولهم واختلفت الروايات في بنات الأخت لأب مع الخالة والصحيح أن الخالة أولى وأولى الخالات الخالة لأب وأم، ثم الخالة لأم، ثم الخالة لأب، وبنات الإخوة أولى من العمات والترتيب في العمات على نحو ما قلنا في الخالات كذا في فتاوى قاضي خان، ثم يدفع إلى خالة الأم لأب وأم، ثم لأم، ثم لأب، ثم إلى عماتها على هذا الترتيب.

وخالة الأم أولى من خالة الأب عندنا، ثم خالات الأب وعماته على هذا الترتيب كذا في فتح القدير. والأصل في ذلك أن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات فكانت جهة الأم مقدمة على جهة الأب كذا في الاختيار شرح المختار." (ج:1، ص:541)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512101374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں