بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے کا درست طریقہ


سوال

 میری شادی کو 38 سال ہوگئے ہیں ، میری بیوی  مسلسل مجھ سے طلاق کا تقاضہ کررہی ہے ، طلاق کے تقاضہ کی وجہ خاندانی پیچید گیاں ہیں کہ میں ان کے مطالبات پورا نہیں کرتا  اوروہ ایسے حالات بھی پیدا کر دیتی ہے کہ میں اسے مجبور ہو کر چھوڑ دوں ، وہ بد زبان بھی ہے اور بداخلاق بھی ہے، مجھے معلوم کرنا ہے کہ بیوی کو طلاق دینےکا اسلامی طریقہ کا رکیاہے؟  آیا سب کے سامنے دینا ضروری ہے یا اکیلے میں بھی دے سکتے ہیں یا لکھ کر دینا ضروری ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں اولاً تو   نباہ کی ہی کوشش کی جائے، اگر کسی کی فہمائش یا کسی بھی طریقے سے بات بن سکتی ہو تو اس سے  دریغ نہ کیا جائے، لیکن اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہو اور طلاق دینا ناگزیر ہو تو اس کا سب سے افضل طریقہ یہ ہے کہ بیوی کی پاکی کے ایام میں جس میں ہم بستری نہ کی ہو ایک طلاقِ رجعی دے دیں،  یعنی یوں کہہ دیں "میں نے ایک طلاق دی" اور  پھر تین ماہواریاں پوری ہونے  تک رجوع نہ کریں ، تین ماہواریاں پوری ہوتے ہی  نکاح ختم ہوجائے گا،اس صورت میں عدت کے دوران رجوع اور عدت کے بعد تجدیدِ  نکاح کی گنجائش رہے گی ،اور اگر تین  طلاقیں دینی ہوں تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے  کہ الگ الگ تین طہروں (پاکی کے اَیّام ) میں ایک ایک طلاقِ رجعی دےدیں، اس صورت میں تیسری طلاق دینے سے پہلے پہلے عدت کے دوران رجوع کی گنجائش رہے گی، لیکن تیسری طلاق دیتے ہی  رجوع یا تجدیدِ  نکاح کی گنجائش ختم ہوجائے گی،نیز طلاق  واقع ہونے کے لیے گواہوں کی موجودگی شرعًا ضروری نہیں، بلکہ بیوی کا سننا بھی ضروری نہیں ہوتا، اگر شوہر تنہائی میں بھی طلاق کے الفاظ کہہ دے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے  ،تاہم گواہ بنا لینا بہتر ہے ۔

واضح رہے کہ طلاق جس طرح زبان سے الفاظ طلاق کے  ادا کرنے سے واقع ہو جاتی ہے اسی طرح لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

فتاویہ ہندیہ میں ہے :

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت ‌فنوعان ‌حسن ‌وأحسن ‌فالأحسن ‌أن ‌يطلق ‌امرأته ‌واحدة ‌رجعية ‌في ‌طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها والحسن أن يطلقها واحدة في طهر لم يجامعها فيه ثم في طهر آخر أخرى ثم في طهر آخر أخرى كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الطلاق،الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه،الطلاق السني،ج:1،ص:348،ط:دار الفكر بيروت)

الجامع لأحكام القرآن میں ہے:

"‌قوله ‌تعالى: ‌وأشهدوا ‌أمر ‌بالإشهاد «4» ‌على ‌الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعا. وهذا الإشهاد مندوب إليه عندأبي حنيفة، كقوله تعالى: وأشهدوا إذا تبايعتم «1» [البقرة: 282]. وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألا يقع بينهما التجاحد، وألا يتهم في إمساكها، ولئلا يموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية «2» ليرث. الثانية- الإشهاد عند أكثر العلماء على الرجعة ندب."

(سورة الطلاق،ج:18،ص:157، 158، ط:دار الكتب المصرية)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں