بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کےبعد طلاق دینے کا حکم


سوال

 زید کی دو منگنیاں ہوئی ہیں ،شادی ابھی تک نہیں ہوئی، زیدکی بھابھی اور زیدکے والد نےجھگڑا کیا۔لڑائی کے بعد زید کی بھابھی اور اس کے شوہر نے اپنا گھر چھوڑدیا ،سسرال کے گھر گئے۔گھرمیں زید اور والد رہ گئے، زید کے چچا نے اپنےبھائی(زید کے والد)سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی بہو کوپھر یہاں اس گھر میں چھوڑا تو آپ اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہو، تو زید نےایک دم کہا کہ اگر (بھابھی) پھراس گھر میں داخل ہوئی  تو ہم پر دونوں بیویاں ثلاثًاطلاق ہوں گی، ایک دن کے بعد بھابھی کا بھائی اپنی بہن اور سالےکو زیدکے اسی گھرلایا اوراسی گھر کے اندر داخل کیا،اور دونوں فریق کی  صلح کرائی ، 7یا8مہینے سےپھراس گھر میں اکٹھےزندگی  گزار رہے ہیں ، کیا طلاقیں واقع ہوئی ہیں   یا نہیں۔؟اگر واقع ہوئی ہیں  تو کتنی طلاقیں ہیں ؟ ۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص(زید) کا اگردونوں  منگنیوں  کے ساتھ  باقاعدہ نکاح بھی ہوا تھا تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی دونوں بیویوں پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ، دونوں کا نکاح ختم ہو چکا ہے، اب رجوع بھی جائز نہیں ۔ اور اگر منگنی کے وقت کسی کےساتھ  نکاح نہیں ہوا، صرف منگنی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں کسی پر بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتح القدیر میں ہے ۔

"و شرطه في الزوج أن يكون عاقلًا بالغًا مستيقظًا، و في الزوجة أن تكون منكوحته أو في عدته التي تصلح معها محلًّا للطلاق."

( کتاب الطلاق ،3/ 463 ط : دارالفکر )

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)."

(با ب طلاق غیر المدخول بها، ج: 3، صفحہ: 286، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق."

(کتاب النکاح، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، ج: 1، صفحه: 373، ط: رشيدیه)

وفیہ ایضاً:

    "إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق."

( كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،ج:1،ص:420، ط: رشيديه)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’منگنی کی جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں وہ صرف رشتہ اور ناطہ مقرر کرنے کے لئے کی جاتی ہیں ۔ اس میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہ وعدہ کی حد تک رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ منگنی کی مجلس کے بعد فریقین بھی اس کو نکاح قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے بعد نکاح کی مجلس منعقد کی جاتی ہے اور نکاح پڑھایا جاتا ہے اس لئے ان مجالس کے الفاظ میں عرف یہی ہے کہ وہ بقصد وعدہ کہے جاتے ہیں نہ بقصد نکاح ۔ ورنہ نکاح کے بعد پھر مجلس نکاح منعقد کرنے کے لئے کوئی معنی نہیں ۔ نیز منگنی کی مجلس کے بعد منکوحہ سے اگر زوج تعلقات زن شوئی کا مطالبہ کرے تو کوئی بھی اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتا بلکہ کہتے ہیں کہ نکاح تو ہوا ہی نہیں ۔ عورت کو مرد کے پاس کیسے بھیج دیا جائے،  بہر حال منگنی کی مجلس وعدے کی مجلس ہے اس کے الفاظ سب وعدہ پر محمول ہوں گے ۔ کیونکہ عرف یہی ہے ۔ لہذا اس کو نکاح قرار دینا درست نہیں، البتہ اگر منگنی کی مجلس میں صریح لفظ نکاح استعمال کیا جائے ۔ مثلا ً زوج یا اس کا ولی یوں کہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کر دو اور ولی زوجہ کہے کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا تو نکاح ہوجائے گا ۔  لأن الصریح یفوق الدلالة.‘‘

(کتاب النکاح،ج:5،ص:49،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں