بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق ہے تو طلاق ہے کہنے سے طلاق کا حکم اور رجوع کا طریقہ


سوال

میرا نکاح فروری 2023ء کو ہوا، اور میں اب ایک بچے کا باپ ہوں، شادی کے بعد اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے والدین کے ساتھ رہا، تقریباً آٹھ ماہ تک تمام معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہے، بچے کی پیدائش کے بعد بھی  اپنے میکے میں سوا مہینے گزارنے کے بعد گھر آئی تو آئے دن چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار شروع  ہوگئی اور اکثر وبیشتر  میکے میں رہنا بن گیا اور اس دوران میں اپنی بیوی اور بچے کے اخراجات پورے  کرتا رہا، پھر مجھے اپنے والدین سے علیحدہ ہونے اور الگ گھر میں رہنے کا مطالبہ کردیا، بالآخر میں نے ماں باپ سے علیحدہ ہوکر بیوی کی مرضی سے ایک کرائے کا گھر لے کر رہنا شروع ہوگیا، مطالبہ پورا کردینے کے باوجود بیوی کی جانب سے آئے دن لڑنے کے نئے بہانے تلاش کیے جانے لگے، جیسے کہ خرچہ پورا نہ ہونا، سبزی دال کا کھلانا، اکثر بھوکا رہنا وغیرہ، جب کہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے، پھر ایک دن سیلنڈر میں گیس ختم ہوگئی، جب کہ میں ڈیوٹی پر تھا، گھر واپس پہنچنے پر بحث وتکرار شروع ہوگئی جو طول اختیار کرگئی، جس پر بیوی کا کہنا تھا کہ میرا اس طرح گزارا نہیں ہوگا، اور مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا،  مجھے طلاق دو!، اس پر میں نے حیرت زدہ ہوکر اس سے پوچھا کہ کیا میں تمہیں چھوڑدوں؟ اسی بات کا اکثر میری ساس بھی مجھ سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ میری بیٹی کو چھوڑدو!، اس صورتِ حال کے پیش نظر میں نے اپنے والدین کو تمام حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بیوی کی جانب سے طلاق کے مطالبہ کا بھی بتایا، جس پر والدین نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا، بحث وتکرار کے بعد لڑکی نے اپنے والدین کو فون کرکے بلایا اور ان کے ساتھ مختصر سامان لے کر چلی گئی، چند دن بعد میں اپنے والدین کے ہمراہ بیوی کو منانے اور اپنے گھر لے جانے کے لیے سسرال گیا، جہاں مجھے اپنے بچے سے بھی ملنے سے روکا گیا، جہاں تلخ کلامی ہوئی اور غصہ پر اکسایا گیا،وہ مجھے اپنے بچے سے ملنے نہیں دے رہے تھے، جس پر میں نے غصہ میں یہ الفاظ کہہ دیے:” طلاق ہے تو طلاق ہے“، اور پھر میں وہاں سے آگیا، اس واقعہ کو دس دن ہوچکے ہیں، آپ سے التماس ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں میری راہ نمائی فرمائیں کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟اور رجوع کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کے طلاق کے مطالبے پر غصے میں یہ الفاظ کہےہیں کہ :”طلاق ہے تو طلاق ہے“، تو ان الفاظ سے سائل کی بیوی پر دو طلاقِ رجعی واقع ہوچکی ہیں، البتہ عورت کی عدت (جوکہ حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہ واریاں اور حمل ہونے کی صورت میں وضعِ حمل ہے) مکمل ہونے  سے پہلے پہلے سائل کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے،  اگر سائل نے عورت کی عدت  ختم ہونے سے قبل رجوع کرلیا تو نکاح قائم رہے گا ، اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت مکمل ہوتے ہی  نکاح ختم ہوجائے گا، پھر اگر دونوں ساتھ رہنے پر رضا مند ہوں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدید نکاح کرکے ساتھ رہنا جائز ہوگا۔  عدت کے اندر رجوع کی صورت ہو  یا عدت کے بعد  تجدیدِ  نکاح  کی صورت ہو، دونوں صورتوں میں سائل کو آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا حق  حاصل ہوگا، لہذا آئندہ جب کبھی سائل نے مزید ایک طلاق دی تو عورت حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گیاور پھر رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش نہ ہوگی۔

اور  رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا،اس سے قولی طور پر رجوع ہوجائے گا،اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ بیوی سے تعلق قائم کرلے یاخواہش و رغبت سے اسے چھوئے یابوسہ لے لے اس سے بھی رجوع ہوجائے گا، لیکن فعلی رجوع مکروہ ہے۔حاصل یہ ہے کہ قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے، البتہ قولی رجوع کرنا اوراس پر گواہان قائم کرنا مستحب ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"روى ابن سماعة عن محمد - رحمه الله تعالى - فيمن قال لامرأته: كوني طالقًا أو اطلقي، قال: أراه واقعًا و لو قال لها: أنت طالق طالق أو أنت طالق أنت طالق أو قال: قد طلقتك قد طلقتك أو قال: أنت طالق و قد طلقتك تقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولًا بها، و لو قال: عنيت بالثاني الإخبار عن الأول لم يصدق في القضاء و يصدق فيما بينه وبين الله تعالى."

(کتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الأول، ج:1، ص:355، ط: دار الفكر)

وفيه أيضاً:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 470، ط: دار الفكر)

وفيه أيضاً:

"وهي –الرجعة- على ضربين: سني، وبدعي، فالسني أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك."

(الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:468، ط: دار الفكر)

وفيه أيضاً:

"إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها."

(كتاب الطلاق، فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 473، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604100757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں