میں نے دو شادیاں کی تھیں، تاہم اب پہلی بیوی کو طلاق دے دی ہے، اس سے میرے دو بیٹے اورایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے کی عمر 14 سال ، بیٹی کی عمر 11 سال، چھوٹے بیٹے کی عمر 9 سال ہے۔
پوچھنا یہ ہے کہ بچے والدہ کے پاس کب تک رہیں گے؟ اور والد کے پاس کتنی عمر تک رہیں گے ؟ اور والد بچوں کو کب لے سکتا ہے ؟ جبکہ کورٹ نے بچوں کا والدہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اور ان کے خرچہ کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ اگر والد پر ہے تو کتنی رقم، اور کب تک کے لیے ؟ موجودہ حالات کے اعتبار سے اگر ان کو کم خرچہ دے دوں، تو کیا گناہ گار ہوں گا ؟
میرے والدین انتقال کر گئے ہیں ان کی بخشش کے لئے کیا عمل کروں ؟ اور مجھ پر کیا لازم ہے ؟ رہنمائی فرمادیں۔
1۔صورت ِ مسئولہ میں سا ئل کے تینوں بچوں کی عمر مدت ِحضانت (یعنی پرورش کی عمر جو کہ لڑکے کی سات سال اور لڑ کی کی نو سال ہے) سے تجاوز کرچکی ہے،لہذا شرعی اعتبار سے ماں اپنے بچوں کو اپنے زیر ِ تربیت رکھنے کی مجاز نہیں ہوگی، والد تینوں بچوں کو اپنے زیر ِ تربیت رکھنے کا شرعا ً حقدار ہوگا، تاہم اگر سائل بچوں کو ان کی والدہ کے زیر تربیت رکھنے پر راضی ہو،تو وہ بچوں کو ان کی والدہ کے پاس چھوڑ سکتا ہے۔
بچے خواہ والد کے پاس رہیں یا اپنی والدہ کے پاس رہیں ، بہر صورت بیٹی کی شادی تک کے تمام اخراجات والد پر لازم ہوں گے، اور بیٹے جب تک کمانے کے قابل نہیں ہو جاتے ان کے اخراجات بھی والد کے ذمہ ہوں گے۔ تاہم بچوں کے نفقہ کا تعلق والد کی مالی حیثیت سے ہے،پس والد کی مالی حیثیت سے زائد نفقہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
نیز بچہ والدین میں سے جس کے ساتھ بھی رہیں کسی ایک فریق کو دوسرے فریق پر اپنے بچوں سے ملاقات کرنے پر پابندی لگانے کا اختیا نہیں ہوگا۔
2۔والدین کے انتقال کے بعد ان کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ان کے لئے ایصال ِ ثواب کیا جائے، مثلاً قرآن کریم کی تلاوت، ذکرواذکار، صدقات وخیرات،غرض جو بھی نیک اعمال ہو سکیں ان کا ثواب والدین کو بخش دیا جائے،نیز ان اعمال کو کرنے والا بھی ثواب میں برابر کا شریک ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے :
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا"۔
(قوله: حتى يستغني عن النساء) بأن يأكل ويشرب ويستنجي وحده، والمراد بالاستنجاء تمام الطهارة بأن يتطهر بالماء بلا معين، وقيل مجرد الاستنجاء وهو التطهير من النجاسة وإن لم يقدر على تمام الطهارة زيلعي أي الطهارة الشاملة للوضوء. "
وفيه أیضا:
"وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. اهـ. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية."
وفيه أیضا:
"وفي السراجية: إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها، بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة ، ج :3، ص : 571 /566، ط : سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما وقت الحضانة التي من قبل النساء فالأم والجدتان أحق بالغلام حتى يستغني عنهن فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده كذا ذكر في ظاهر الرواية."
وفيه أیضا :
"وأما التي للرجال فأما وقتها فما بعد الاستغناء في الغلام إلى وقت البلوغ وبعد الحيض في الجارية إذا كانت عند الأم أو الجدتين وإن كانا عند غيرهن فما بعد الاستغناء فيهما جميعا إلى وقت البلوغ لما ذكرنا من المعنى وإنما توقت هذا الحق إلى وقت بلوغ الصغير والصغيرة؛ لأن ولاية الرجال على الصغار والصغائر تزول بالبلوغ كولاية المال غير أن الغلام إذا كان غير مأمون عليه فللأب أن يضمه إلى نفسه ولا يخلي سبيله كي لا يكتسب شيئا عليه وليس عليه نفقته إلا أن يتطوع فأما إذا بلغ عاقلا واجتمع رأيه واستغنى عن الأب وهو مأمون عليه؛ فلا حق للأب في إمساكه كما ليس له أن يمنعه من ماله فيخلي سبيله فيذهب حيث شاء."
(کتاب الحضانة، فصل في وقت الحضانة، ج : 4، ص : 42/43، ط : دار الکتب العلمیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج : 1، ص : 561، ط : دار الفکر بیروت)
وفيه أیضا :
"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج : 1، ص : 543، ط : دار الفکر بیروت)
سنن ِ أبوداؤد میں ہے :
"حدثنا إبراهيم بن مهدي، وعثمان بن أبي شيبة، ومحمد بن العلاء المعنى قالوا: حدثنا عبد الله بن إدريس، عن عبد الرحمن بن سليمان، عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاءه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما"۔
ترجمہ : حضرت ابواُسید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور اُس نے نبی کریمﷺسےدریافت کیا:یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔
(أبواب النوم ، باب في بر الوالدين، ج : 4 ، ص : 336، رقم الحدیث :5142، ط :المکتبۃ العصرية بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100651
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن